عموماً طاقت اور اقتدار کے حصول کے بعد خوشی کے شادیانے بجائے جاتے‘ ارمان پورے کرنے کی وجہ جانا جاتا ہے مگر ایک اچھے انسان اور سچے مسلمان کیلئے ”اقتدار ایک امتحان ہے‘ آزمائش ہے‘ کانٹوں کی مالاہے نہ کہ پھولوں کی سیج۔“ اور وہ اقتدار کے حصول کے بعد خوش ہونے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں میں اضافے کی وجہ سے زیادہ سنجیدہ اور متفکر رہنے لگتا ہے۔ عجز و انکساری کا پیکر بن جاتا ہے نہ کہ فرعون ناتواں خود کو سمجھنے لگے۔ اسلامی تاریخ کے عظیم خلیفہ حضرت عمرؓ نے جب زمام خلافت سنبھالی تو حمد و ثناءکے بعد مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔اقتباس پیش خدمت ہے۔
”اے لوگو! میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں‘ اگر مجھے ابوبکر صدیقؓ کی نافرمانی کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہارا امیر اور حاکم بننا کبھی پسند نہ کرتا۔ لوگو! خدا تعالیٰ نے مجھے تمہارے لئے آزمائش بنایا ہے۔ تم میں سے جو نیک کام کرے گا‘ میں اس سے نیک سلوک کروں گا اور جو بُرائی کامرتکب ہوگا‘ اسے عبرتناک سزا دوں گا۔ عرب کی مثال اس وقت اونٹ کی ہے جو اپنے سیاربان کا مطیع ہے۔ اس کے رہنما (سیاربان) کا فرض ہے کہ دیکھے وہ اسے کس طرف لے کر جا رہا ہے۔ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تمہیں سیدھے راستے پرلے چلوں گا۔ (طبقات ابن سعد)
آپؓ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہتے تھے۔ غرور کا ذرا سا شائبہ پیداہوتا تو اس کا ”تدارک“ فرماتے۔ ایک دن اپنی پیٹھ پر پانی کا مشکیزہ اٹھائے جا رہے تھے۔
لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا! میرے نفس نے مجھے غرور میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں اسے ذلیل کر رہا ہوں۔“ آپؓ کو ہمیشہ یہی ڈر لگا رہتا کہ ! ان کی سلطنت میں کوئی غریب بھوکا نہ ہو، کہا کرتے تھے کہ ! اگر دریائے فرات کے کنارے ناحق بکری کا بچہ بھی مر گیا تو اس کا حساب بھی مجھ سے ہی لیا جائے گا“ لیکن آج جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہم انگنت انسانی جانوں کو بھوک اور پیاس، ادویات کے نا ہونے اور ضروریات زندگی کی کمی سے سسکتے بلکتے دیکھتے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہماری اکثریت مردہ ضمیر لوگوں پر مشتمل نفسانفسی میں مبتلا ہوتی ہے۔ خدا کا خوف رکھنے والے، انسانیت کا درد محسوس کرنے والے آٹے میں نمک برابر رہ گئے ہیں جو مستحق اور بے سہارا لوگوں کی داد رسی کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ جبکہ حکمران طبقہ عوام کی بے بسی، بے چارگی ، بھوک اور افلاس کی حالت سے بے خبر سب اچھا ہے کی جھوٹی رپورٹس پرمطمئن اور شاداں دکھائی دیتا ہے۔ ماسوائے ان گنے چنے لوگوں جو حکمرانوں کے اردگرد موجود مراعات یافتہ طبقے تک رسائی پا سکیں اور اپنے مسائل حل کروا سکیں پر ہی پوری قوم کے مسیحا ہونے کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ! عام آدمی کی حالت نا تو کبھی سنوری ہے اور نا ہی آگے کوئی آس امید نظر آ رہی کیونکہ وہی لوگ ہیں بدل بدل کر کبھی کسی کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں اور کبھی کسی اقتدار میں آنے والوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ عوام کیحالت بدلنی تو کیا دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ضرورت ہے تو صرف حکمران طبقے کی ذاتی دلچسپی لینے سے ایسے ذرائع استعمال کرنے سے جس سے عام آدمی کی حالت کے بارے میں حکمرانوں تک ان کی آواز پہنچے۔ حکمران تک ان کی داد رسی ہو ا ور ان کے مسائل حل ہوں ا وراقتدار جو کہ آزمائش ہے۔ تب کہیں وہ آزمائش پر پورا اتریں گے۔ ا یک وقت تھا جب پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کھلی کچہری لگایا کرتے تھے۔ اس سے کافی حد تک عام آدمی کے مسائل حل ہو جاتے تھے۔ لیکن پھر امن و امان کی خرابی کی وجہ سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب ٹیکنالوجی کی جدت سے آن لائن عوام کے مسائل سن کر ان کاتدارک کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ آنے والوں پر ہے کہ! وہ موقعہ ملنے پر پیارے نبی اور ان کے خلفائے راشدین کے نقشِ قدم پر چل کر اَمر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر ڈانواڈول رہ کر نہ اِدھر کے رہیں نا اُدھر کے رہنا پسند کریں گے۔