لاہور ( تجزیہ : ندیم بسرا) وزیراعظم عمران خان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع کا فیصلہ حیران کن نہیں بلکہ اندریں حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورت حال، ایران امریکہ کی کشیدگی سے پیدا ہونے والی مشرق وسطی کی صورت حال، پاکستان کے ارد گرد سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع کا فیصلہ قابل فہم ہے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع کا فیصلہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں بلکہ جب بھی ملکی سا لمیت، اس کی جغرافیائی سرحدوں کو خطرات لاحق ہوں تو تمام ممالک اپنی فوجی قیادت کے تسلسل کا دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہیں اور یہ بھی ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے، ملکی اندرونی اور بیرونی حالات سے نمٹنے کیلئے آرمی چیف کی توسع کا فیصلہ وقت کی اہم ضرورت تھے، یہ اعزاز بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو حاصل ہے 2018 الیکشن کے بعد منتخب ہونے والی جمہوری حکومت کے ساتھ افواج پاکستان ملکی بہتری کی پالیسیوں پر ایک پیج پر نظر آئے، اس بات کا کئی بار وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزراء فردوس عاشق اعوان ،فواد چودھری کر چکے ہیں جبکہ اس بات کااعتراف ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور بھی کرچکے ہیں کہ پاکستان کے مفاد کی حکومتی پالیسیوں پر افواج پاکستان ان کے ساتھ کھڑی ہے ، وزیراعظم کے اس فیصلے کے بعد متنازعہ صورت حال کے حوالے سے چہ مگوئیاں دم توڑ گئیں ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی موجودہ حکومت کی مثبت سوچ کی پالیسی کوامریکہ جیسی سپر پاور نے بھی سراہا یہ تاریخ میں پہلی بار ہوار کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوجی انخلاء کے لئے پاکستان سے مدد مانگی گئی ہے کیونکہ امریکہ اس بات کو بخوبی جان گیا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن اور حکومت قائم کرنا پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ مل کر ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔اس لئے پاکستان سے مدد مانگی گئی، پاکستان کی سر حدوں کی گھمبیر صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع ایک بہت مدبرانہ فیصلہ ہے کیونکہ نریندر مودوی نے اپنی انتخابی مہم اور بی جے پی کی قیادت کے جب بھی پاکستان پر حملہ کرنے پر بیانات جاری ہوتے تو جنرل قمر جاوید باجوہ بلا توقف ان کا دندان شکن جواب دیتے رہے اور اب موجودہ کشمیر کی صورت حال اور سرحدی محاذ کے پیش نظر موجود سپہ سالار ہی صحیح انتخاب بنتا تھا ، اگر ہم ملک کی بات کریں تو یہ بات تقویت کا باعث بنتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بھی عسکری قیادت اور سیاسی قیادت ہر فیصلہ باہمی مشاورت سے کرتے ہیں ۔