ماضی میں بھی بری فوج کے سربراہوں کی ملازمت میں توسیع کی جاتی رہی

اسلام آباد (جاوید صدیق) پاکستان میں ماضی میں بھی بری فوج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی رہی ہے، پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور اس وقت کے صدر میجر جنرل سکندر مرزا کو ( جنھوں نے ایوب خان کو اپنی کابینہ میں وزیر دفاع مقرر کیا تھا ) برطرف کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدہ کے ساتھ 4 برس تک اقتدار میں رہے۔ انھوں نے 1962 میں اپنا آئین دیا اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا۔ مارچ 1969 میں کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کو اقتدار سے الگ کر کے ملک میں دوسرا مارشل لاء لگا دیا۔ وہ فوج کے سربراہ کے علاوہ ملک کے صدر بھی بن گئے۔ جنرل یحییٰ خان کو اس وقت اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنا پڑا جب مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ پیپلز پارٹی جو متحدہ پاکستان میں انتخابات جیت چکی تھی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اقتدار میں آ گئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل حسن کو نیا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل گل حسن میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں جس پر مسٹر بھٹو نے کمانڈر انچیف جنرل گل حسن اور ایئرچیف عبدالرحیم کو ڈرامائی انداز میں اپنے عہدوں سے الگ کر دیا۔ بھٹو نے جنرل گل حسن کے بعد فوج کا نیا چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکا خان کو مقرر کیا۔ 1976 میں جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ضیاء الحق کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا، جنرل ضیاء الحق کو سات سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے چیف بنایا گیا۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جولائی 1977 سے 17 اگست 1988 تک جنرل ضیاء الحق فوج کے سربراہ اور ملک کے صدر رہے، 17 اگست کو ان کی حادثاتی موت کے بعد وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ نئے آرمی چیف بنے۔ انھوں نے 1988 میں انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ بے نظیر کو 5 اگست 1990 کو صدر نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے برطرف کر دیا اور نئے انتخابات کرائے۔ جنرل اسلم بیگ اپنی مدت ملازمت میں مدت کے خواہاں تھے لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ان بن ہونے کی وجہ سے انھیں توسیع نہ مل سکی۔ صدر غلام اسحٰق خان نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو نیا آرمی چیف بنا دیا۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ 1992 میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ جن کے بعد جنرل وحید کاکڑ نئے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل کاکڑ کو مدت ملازمت میں 3 سال توسیع کی پیشکش کی جو انہوں نے مسترد کر دی۔ جنرل کاکڑ کے بعد نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جنرل جہانگیر کرامت کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا لیکن جنرل جہانگیر کرامت مستعفی ہو کر اپنے عہدے سے الگ ہو گئے۔ جن کے بعد جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو عہدہ سے ہٹا کر اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کرنے کی کوشش کی لیکن فوج نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ بعد میں انہوں نے 2002 میں ریفرنڈم کرا کر صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جنرل پرویز مشرف 1999 سے 2007 تک آرمی چیف رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف بنے تو انہیں صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا کیلانی نے تین سال کی ایکسٹینشن دے دی۔ جنرل اشفاق پرویز گیلانی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ بنا گیا، جنرل راحیل شریف بھی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند تھے لیکن انہیں توسیع نہ مل سکی۔ ان کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ 2016 میں آرمی چیف بنے، ان کی مدت ملازمت نومبر 2019 میں ختم ہو رہی ہے لیکن اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے انھیں ملک کی داخلی سیکورٹی، علاقائی ماحول، کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ تسلط سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر پیر 19 اگست کو مدت ملازمت میں 3 سال توسیع کا اعلان کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...