پاکستان ایک نئے سفر پر ہے، اللہ کرے کہ یہ سفر حق، سچ، حقیقی آزادی اور خودمختار خارجہ پالیسی کا سفر ہے۔ پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور یقیناً اس دور میں ایک نئی اور آزاد خارجہ پالیسی بناتے ہوئے کئی نئے دوست بن جائیں کچھ پرانے دوستوں سے تعلقات میں نرمی اور کچھ دوستوں سے تعلقات میں گرم جوشی آ سکتی ہے۔ گذشتہ کئی روس سے پاکستان اور سعودیہ کے مابین تعلقات کے حوالے سے اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد یہ بحث شروع تھی کہ اس حوالے سے پاکستان کا مستقبل کیا ہو گا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سفر شروع کر دے گا شکر ہے کہ اس حوالے سے پائی جانے والے خدشات دور ہوئے، افواہوں کا خاتمہ ہوا اور وزیراعظم عمران خان نے فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہوئے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو حقوق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے، میرا ضمیر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہو گا، فلسطین کی صورتحال مقبوضہ کشمیر جیسی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کیا تو ہمیں کشمیر سے بھی دستبردار ہو جانا چاہیے۔ فلسطین کے معاملے پر اللہ کو جواب دینا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو حقوق ملیں گے تو ہی اسرائیل کو تسلیم کریں گے۔
عمران خان کا یہ اعلان خوش آئند ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو یاد کرنا یا ان کا حوالہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم کس حد تک فلسطین اور اسرائیل کے معاملے پر واضح سوچ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بیان یا اعلان ہی پاکستان کے نئے سفارتی سفر کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔ پاکستانی کسی بھی صورت اسرائیل کے معاملے پر اپنے دیرینہ اصولی و مذہبی موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ ہم انیس سو سینتالیس سے آج تک خون برداشت کر رہے ہیں فلسطین کے معاملے میں بھی پاکستانی خون بہانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ پاکستانیوں کی فلسطین کے ساتھ محبت لگاؤ اور جذباتی وابستگی سرحدوں کی محتاج نہیں ہے۔ پاکستان دنیا کے ہر مسلمان کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے۔ پاکستان دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے اور مسلمانوں پر ظلم کی مخالفت اور مذت کرتا ہے۔ پاکستان ہر وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ یونہی نہیں کہا جاتا اس کی بہت مضبوط اور ٹھوس وجوہات ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں میں حقیقی طور پر امت کا دکھ درد اور اتحاد امت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں خطے میں تیزی سے بدلتی صورتحال میں پائیدار قیام امن کے لیے غیر جانبدار رہتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت اسلامی ممالک میں سفارتی سطح پر فریق بننے کے بجائے غیر جانبدار رہنے کی حکمت عملی پر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان خارجہ پالیسی کے اس نئے سفر میں نئے بلاک کا حصہ بن رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی ممالک کا ایک ایسا نیا بلاک بنے جس میں عرب ممالک کی نمائندگی نہ ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ یہی بلاک آنے والے دنوں میں دنیا کے نقشے میں تبدیلی کا باعث بنے۔ ایسا اسلامی بلاک ہی مسلم امہ کے مسائل کے حل میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر عالمی دنیا کی مجرمانہ خاموشی مسلم دنیا کے لیے پیغام ہے کہ اپنے مستقبل بارے سنجیدگی سے سوچیں۔ کشمیر کے مسئلے پر دنیا کی خاموشی بھی مسلم دنیا اور بالخصوص دنیا کے بڑے اور غیر مسلم ممالک اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچپسی کا مظاہرہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی گئی، مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو اور لاک ڈاؤن کو ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن دنیا نے بھارتی مظالم رکوانے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ فلسطین کو دیکھیں تو وہاں بھی اسرائیل مسلمانوں پر ظلم و ستم کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی فلسطین کے نقشے پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے غیر آئینی اقدامات کی مذمت کی تھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودیہ کے دورے پر دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہ ناصرف اسٹریٹجک تعلقات کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں بلکہ اس اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی موثر انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بیان نہایت اہم ہے کیونکہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پھیلتی معیشت سے خائف ہے وہ ہر طریقے سے پاکستان کے اس مستقبل کو بدلنے کی کوشش کرے گا ان حالات میں وزارت خارجہ کو متحرک رہتے ہوئے ہر وقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت خارجہ کو سفارتی محاذ پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے واضح موقف کے بعد یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ فلسطین پر موقف میں تبدیلی کے بعد کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستان کا موقف کمزور پڑ جائے گا یوں کشمیر اور فلسطین پاکستانیوں کے رگوں میں خون کی طرح دوڑتے ہیں۔
پاکستان ایران سمیت کسی بھی ہمسائے سے غیر ضروری محاذ آرائی کا خواہشمند ہرگز نہیں ہے۔ ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے یہی بھارت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کا ازلی دشمن نے کبھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا وہ اسلام و پاکستان دشمن ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے اور دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اگر پاکستان کوئی نیا سفر شروع کرتا ہے تو اس ازلی دشمن کے حملوں میں شدت آئے گی۔ متحرک، فعال اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک موثر بلاک کی ضرورت ہے۔ نمایاں دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کو اسلامی ممالک میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے عوام بھی اسلامی ممالک کے اتحاد کے لئے اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ عمران خان دنیا کو دلائل سے قائل کرنے اور مسلمانوں کو مقدمہ دنیا کے سامنے بہترین انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بین الاقوامی سطح پر متعدد بار اس کا مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔ دفاعی شعبے میں بھی ہماری افواج بہترین صلاحیتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے اور پرامن اور بہتر مستقبل کے لیے ہمیں آزاد خارجہ پالیسی کے نئے سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔ دنیا کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ اللہ پاکستان کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور اس ملک کے شہریوں کو امت مسلمہ کی خدمت کرنے اور اسلام کا جھنڈا سربلند رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
اب آئیں ذرا شہر قائد پر، یہاں ملک ہے مقتدر ادارے نے سندھ اور کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے تین بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے تینوں اہم سیاسی جماعتوں اور سندھ کے حکمرانوں کو ایک ساتھ بٹھایا ہے تاکہ سب مل کر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوں، عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اور ملک کا معاشی مرکز ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بن سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تینوں سیاسی جماعتیں متحد ہو کر کام کریں گی۔ بالکل نہیں اس حوالے سے کراچی کے رہنے والوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ کی تباہی کے لیے غیر اعلانیہ اتحاد کر رکھا ہے نہ وہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو موقع دیتے ہیں۔ وفاق اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ حال ہی بارش کے پانی اور نالوں کی صفائی اور کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی نے حکمرانوں کے دعوؤں کو بینقاب کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے دہائیوں تک صوبے پر حکومت کی ہے لیکن آج تک کراچی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ دونوں بڑی جماعتوں کو اپنی باری کی فکر رہتی ہے۔ کراچی کو سیاست کے نام پر بے دردی سے لوٹا گیا ہے۔ دونوں جماعتیں اپنی سیاست بچانے کے لیے متحد ہو سکتی ہیں لیکن عوام کے فائدے کے لیے اس مفاہمت کو تسلیم نہیں کر رہیں۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ یہ سمجھتی ہے کہ اس عمل سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ نہیں سوچا جا رہا کہ عوام کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ جہاں سوچ اور فکر کا یہ عالم ہو وہاں عام آدمی کی فکر کسے ہو گی۔کراچی کو بچانے کے لیے وفاق کو بہرحال اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وفاق کو مضبوط کرنے، بڑے شہروں کے مسائل حل کرنے اور عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کو آئینی ترامیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام کیا جائے۔ چاروں بڑے شہروں میں ایک جیسے ترقیاتی فنڈز جاری کیے جائیں، ان شہروں میں جدید رجحانات کو فروغ دیا جائے۔ وفاق ان شہروں کو کنٹرول کرے گا تو ان کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ عام آدمی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو سندھ میں کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کی تجویز پر احتجاج کر رہی ہے۔ کیا سندھ کے عوام کو یہ احتجاج نہیں کرنا چاہیے کہ دونوں بڑی جماعتیں سندھ کا بیڑہ غرق کرنے پر اتحاد کیے بیٹھی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی کارکردگی یہ ہے گذشتہ روز بھی کراچی کی سڑکوں پر سیوریج کا پانی تھا اور ٹریفک متاثر رہی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ میڈیا سے تعلقات کی خرابی حکومت کی بڑی غلطی تھی۔ چلیں دیر آئے درست آئے، بھلا کوئی پوچھے کہ دو سال میں حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ میڈیا سے تعلقات ٹھیک نہیں تھے اب یہ تعلقات کسی اور نے تو خراب نہیں کیے خود حکومت نے کیے ہیں۔ اس عمر اور ان کے ساتھی وزراء ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس غلط فہمی کی بنیاد طر دو سال میں ہونیولے نقصان کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا ازالہ کون کرے گا۔ میڈیا کا کردار رہنما،استاد یا چوکیدار کا ہوتا ہے اگر آپ اس شعبے سے الجھنا شروع کر دیں تو نقصان قوم کا ہوتا ہے۔ لوگوں کو آزاد کریں۔ کوئی بھی حکومت ہو اسے غلطیاں اجاگر کرنے والوں کو دبانے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ میڈیا انڈسٹری میں بہت اچھے اچھے تعمیری اور زرخیز ذہن موجود ہیں۔ اس اعتراف کے بعد کہ حکومت کے میڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں اب اس میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ متعلقہ افراد سے بامعنی و بامقصد مذاکرات کریں فاصلوں کو کم کریں اور آگے بڑھیں۔ اپنے لوگوں کے ساتھ میچ نہ ڈالیں۔
حکومت کے دو سال پورے ہونے پر سروے ہو رہے ہیں اور ہر سروے میں عوام کی طرف ست مہنگائی کی شکایت سرفہرست ہے۔ حکومت اس شعبے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اب کوئی مہنگائی کی خبریں نشر کرے تو کیا حکومت اسے اہنا دشمن سمجھے گی۔ وزراء اسے مافیاز کی کارروائی بھی کہہ رہے ہیں لیکن درحقیقت مہنگائی وزراء کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ متعلقہ وزارتوں نے کام نہیں کیا، کام کرنا تو دور کی بات ہے سمجھا ہی نہیں سو سارا ملبہ مافیاز پر ڈالنا مافیاز کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر بلاتعطل فراہمی سب سے اہم ہے اور حکومت کو اسے یقینی بنانے کے لیے اپنی حکمت عملی بدلنا ہو گی۔