ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضے نبھانا ہماری قومی خارجہ پالیسی کا محور ہے

وزیراعظم عمران خان کا فلاحی ریاست کے عزم کا اعادہ اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا دوٹوک اعلان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انکی پوری زندگی جدوجہد میں گزری‘ اقتدار سنبھالا تو معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی‘ ادارے تباہ ہوچکے تھے‘ انہوں نے اقتدار کے دو سال میں سمجھا کہ کس طرح کے چیلنجز تھے‘ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔ گزشتہ روز اپنی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست منفرد ریاست تھی‘ سب کیلئے قانون برابر تھا‘ ہم نے ترقی کرنی ہے تو غریب طبقے کو اوپر اٹھانا ہوگا۔ شوگر کمیشن رپورٹ میں سامنے آیا کہ شوگر کارٹل بنا ہوا ہے۔ ایلیٹ کلاس خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ نیب جب ایلیٹ کلاس کو بلاتا ہے تو کہتے ہیں ملک تباہ ہوگیا۔ ایلیٹ کلاس دو سال سے انکی حکومت گرانے کی کوشش کررہی ہے اور اس مقصد کیلئے اکٹھی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹی صنعت متعدد چیلنجوں سے دوچار ہے جبکہ بڑے صنعت کار اپنے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا۔ مغربی ممالک بھارت کو چین کیخلاف استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح چین نے بھی ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا۔ ہمارا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان نے ملک کی اقتصادی حالت بدلنے‘ ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے اور عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ روٹی روزگار کے مسائل حل کرنے کے جس جذبے اور عزم کے ساتھ اقتدار سنبھالا انہیں اپنے منشور اور ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے فری ہینڈ کی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے انہیں ملکی معیشت کی انتہائی دگرگوں صورتحال میں اقتدار سنبھالنا پڑا چنانچہ وہ فوری طور پر عوام کو روزمرہ کے مسائل سے نجات نہ دلاسکے جبکہ معیشت کو سنبھالنے کیلئے اختیار کی گئی سخت مالیاتی پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ چنانچہ ان سے اپنے مسائل کے فوری حل کی توقعات رکھنے والے عوام میں مایوسی کی فضا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ وزیراعظم نے اس صورتحال میں بھی بہتری کی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور وہ ادارہ جاتی اصلاح احوال اور عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کی کوششیں بروئے کار لاتے رہے۔ انکی حکومت کو اس دوران مافیاز کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کا بھی سامنا کرنا پڑا جو مہنگائی میں کمی کے انکے اقدامات کو ناکام بنانے کیلئے آٹا‘ چینی‘ گھی اور ادویات کی قلت پیدا کرکے نرخوں  میں خود بھی اضافہ کرتے رہے اور اس کیلئے حکومت کو بھی مجبور کرتے رہے۔ وزیراعظم نے اس مافیا سے ہار نہیں مانی اور وہ اصلاح احوال میں مگن رہے۔ 
مافیاز کے پیدا کردہ حالات میں اپوزیشن کو بھی حکومت مخالف تحریک کیلئے فضا ہموار نظر آئی چنانچہ اس نے مضطرب عوام کو اپنی اس تحریک کیلئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی طے کرلی۔ اس طرح حکومت کیلئے ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس فضا میں پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار کے دو سال پورے ہونا وزیراعظم کے مافیاز اور کرپٹ عناصر کو شکست دینے کے عزم ہی کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اس عرصہ کے دوران جہاں دنیا بھر میں تباہ کاریوں کا اہتمام کرتی کرونا وائرس کے چیلنج کا سامنا ہوا وہیں ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بنے بھارتی عزائم کے مؤثر توڑ کا بھی حکومت کو چیلنج درپیش ہوا جبکہ اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے توسیع پسندانہ مقاصد کی بنیاد پر علاقائی سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوئے جن سے عہدہ برأ ہونے کیلئے پی ٹی آئی حکومت نے قومی خارجہ پالیسی کا چین کی جانب رخ موڑ کر خطے میں طاقت کے توازن کی مؤثر حکمت عملی طے کی جس کے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوئے اور علاقائی و دفاعی تعاون کے حوالے سے پاک چین دوستی نے مؤثر دفاعی حصار کی شکل اختیار کرلی۔ 
اب امریکی سرپرستی میں اور اسکے ایماء پر بھارت پاکستان کی سلامتی کیخلاف کسی قسم کی سازش کریگا جس کا مودی سرکار اعلانیہ اظہار بھی کرتی نظر آتی ہے تو اسے پاکستان کی جانب سے ہی نہیں‘ برادر چین کی جانب سے بھی منہ توڑ جواب ملے گا کیونکہ سی پیک کے تناظر میں دونوں ملک ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن بن چکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی بھارتی سازشوں کو اسکی دفاعی امور میں معاونت کرکے تقویت پہنچاتا ہے تو پاکستان امریکہ کی جگہ چین کو اپنی قومی خارجہ پالیسی کا محور بنانے میں حق بجانب ہوگا۔ بھارت کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کی اعلانیہ منصوبہ بندی کے ناطے پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جبکہ پاکستان اپنی شہ رگ کشمیر کے حوالے سے اپنے دیرینہ اصولی موقف سے دست کش ہونے یا کسی قسم کی مفاہمت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ پالیسی بانیٔ پاکستان قائداعظم نے 1948ء میں بھارتی فوجوں کے کشمیر میں داخل ہونے کے وقت کشمیر کو بھارتی شکنجے سے آزاد کرانے کے حوالے سے خود وضع کی تھی اور  1948ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین پر ناجائز قابض اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا تو قائداعظم نے کشمیر پر اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے والی یواین قرارداد کا ساتھ نہ دیا اور اسکی مخالفت کی۔ پاکستان مظلوم کشمیریوں کی طرح فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ بھی شروع دن سے ڈٹ کر کھڑا ہے اور فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ختم ہونے تک وہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے موقف پر قائم ہے جس کا گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بھی دوٹوک الفاظ میں اعادہ کیا ہے۔ 
یواے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اگرچہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے اندرونی اور بیرونی دبائو بڑھ گیا ہے تاہم پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اس حوالے سے بھی ناممکنات میں شامل ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کے کشمیر کاز کی نفی ہوگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے برادر سعودی عرب سمیت عرب دنیا کے ساتھ برادرہڈ کے ناطے بہت اچھے مراسم استوار ہیں تاہم ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے حوالے سے پاکستان نے اپنی قومی خارجہ پالیسی کا خود تعین کرنا ہوتا ہے اور اسی تناظر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملہ میں کوئی اندرونی بیرونی دبائو قبول نہ کرنا پی ٹی آئی حکومت کی قومی تقاضوں سے ہم آہنگ بہترین پالیسی ہے جو بہرصورت وزیراعظم عمران خان ہی کا کریڈٹ ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن