مسلم لیگ نواز کے صدر محمد شہبازشریف کی سربراہی میں قائم گیارہ جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل موجودہ وفاقی حکومت روزاول ہی سے ملکی معیشت کی بدحالی کا تمام تر ملبہ سابقہ حکومت کے سر پر ڈالتی چلی آرہی ہے۔ حکومتی اکابرین بالعموم اور وزیر خزانہ بالخصوص جب بھی معیشت کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہیں‘ انکی تان سابقہ حکومت ہی کی ناقص کارکردگی اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے سے روگردانی کے الزامات پر آکر ٹوٹتی ہے۔ بلاشبہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہوگی لیکن اب جبکہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ساڑھے چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے‘ تمام وسائل اور اداروں پر اسکی گرفت مضبوط ہو چکی ہے‘ اب تو اس کو اپنے تمام اقدامات کی ذمہ داری خود اٹھا لینی چاہیے۔ مالی سال 2022-23ءکیلئے جو سالانہ میزانیہ پیش کیا گیا‘ اسکی نمایاں خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ حکومت نے زرمبادلہ بچانے کی غرض سے بیشتر درآمدی اشیاءکی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی جن میں لگژری آئٹمز سمیت بہت سے دوسرے آئٹمز شامل تھے اور وزیراعظم سمیت انکی کابینہ کے کم و بیش ہر رکن نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے حکومت کا ایک حقیقت پسندانہ اقدام قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس ایک اقدام کے نتیجے میں ملک کا بہت سا قیمتی زرمبادلہ بچالیا گیا ہے لیکن اب صرف تین ماہ بعد ہی حکومت نے یوٹرن لیتے ہوئے درآمدات پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ عالمی تقاضے پورے کرنے کیلئے امپورٹ سے پابندی ہٹانا ضروری ہے اور آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے۔ ہم امپورٹ پر جلدی پابندی ہٹالیں گے۔ انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صرف نصف ماہ میں درآمدات میں 19 فیصد کمی کی وجہ سے تجارتی خسارہ میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جن آئٹمز یا اشیاءکی درآمد پر سے پابندی اٹھائی گئی ہے‘ ان میں گاڑیاں‘ موبائل فونز‘ امپورٹڈ گوشت‘ مچھلی‘ جوتے‘ پرس اور دیگر پرتعیش اشیاءشامل ہیں۔ اب ان اشیاءکی درآمد سے صرف ایک ماہ میں تجارتی خسارہ 30 فیصد بڑھ جائیگا۔ ستم یہ ہے کہ صرف درآمدی اشیاء پر سے ہی پابندی نہیں اٹھائی گئی بلکہ حکومت نے تو منی بجٹ کی صورت میں 80 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اس حوالے سے چند روز میں آرڈی نینس جاری کردیا جائے گا۔ مزید یہ کہ یکم جولائی سے 30 ستمبر کے تین ماہ کے دوران بجلی کے بلوں کے ذریعے چھوٹے دکانداروں سے پانچ فیصد ٹیکس اور ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا ۔یکم اکتوبر سے پچاس یونٹس تک کے بجلی کے بلوں پر سے اسی شرح سے ٹیکس نافذ رہیں گے ۔ پچاس یونٹس سے زائد کے بجلی کے بلوں پر بتدریج اضافہ کیا جائے گا ۔جبکہ ایک ہزار یونٹ پر ساڑھے بارہ فیصد سیلز ٹیکس اور اس سے زائد پر بیس فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔جس سے 27 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔قبل ازیں تاجروں کے ملک گیر احتجاج کے بعد حکومت نے ایک سال تک کے لیے تاجروں پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔کیا حکومت نہیں جانتی کہ دکان داروں پر سیلز ٹیکس لگانے سے وہ سارا مالی بوجھ خریداروں یعنی عوام پر منتقل کردیں گے ؟ بجلی کے بل پہلے ہی ناقابل ِ برداشت ہو چکے ہیں ۔سسبسڈی ختم ہونے سے بل مزید بڑھیں گے جس سے عوامی مشکلات میں بھی بے پایاں اضافہ ہو گا اور نتیجے کے طورپر ان میں حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھے گی اور حکومت اس عوامی اضطراب او ررد عمل کے آگے نہیں ٹھہر سکے گی۔
موجودہ حکومت کی اب تک کی مختصر مدتِ اقتدار کا اگر عوامی فلاحی اقدامات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت بڑی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ یہ حکومت سابقہ عمرانی حکومت ہی کا تسلسل دکھائی دیتی ہے۔ سابقہ حکومت کے پاس بھی معاشی استحکام کے حوالے سے کوئی وژن تھا نہ کوئی روڈمیپ۔ صرف ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیوں پر تمام نظام حکومت قائم تھا۔ اسکی ترجیحات میں اولین ترجیح اپوزیشن کیخلاف اقدامات شامل تھے۔ چنانچہ اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ساڑھے تین سالوں میں ہی حکومت معاشی بدحالی کا شکار ہو گئی۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسکنے لگے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے چلے گئے‘ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا گیا اور ملک مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ اسکے مقابلے میں اس وقت کی تمام اپوزیشن جماعتوںنے انہی حکومتی ناکام پالیسیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت کو مجتمع کیا اور حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ عوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی معاشی پالیسیوں‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور عوام کے روٹی روزی کے مسائل کو اجاگر کرکے حالات بہتر کرنے کی یقین دہانی کروائی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ عوام کو انکے مسائل سے نجات دلائیگی۔ لیکن انکی تمام امیدیں اور توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں۔ برسر اقتدار آنے کے بعد اس حکومت نے بھی ایسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے غریب اور محنت کش عوام کو زندگی کے ہی لالے پڑ گئے۔ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات سے لے کر اشیائے ضروریہ تک کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ بے مہابہ اضافہ کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے‘ قیمتوں میں بڑھوتری کا عمل عوامی چیخوں کے باوجود تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اور ابھی دو روز قبل ہی وفاقی وزیر خزانہ نے یہ ”خوشخبری“ بھی سنائی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 50 روپے تک بڑھائیں گے۔ گویا حکومت نے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ اب حکومت کا تازہ اقدام درآمدی اشیاءپر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ ہے۔ قوم کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہمارے بھاری بھرکم درآمدی بل ہیں جن کی وجہ سے ہمیں ڈالروں میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یوں ایک طرف ملک میں ڈالرز کی قلت واقع ہو جاتی ہے اور دوسرے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ درآمدی اشیاءپر پابندی عائد کرکے زرمبادلہ کے ذخائر میں واقع ہونیوالی کمی کو روکا گیا ہے لیکن اب عالمی مالیاتی ادارہ سے محض سوا ارب ڈالر کی قسط کے حصول کیلئے اپنے ہی فیصلے کے برعکس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ گویا آئی ایم ایف کے معمولی قرض کی خاطر پورے ملک اور عوام کو گروی رکھا جارہا ہے۔ اس کی ہر شرط کو من وعن تسلیم کرنے کی یہ پالیسی ہرگز دانشمندانہ نہیں ہے ۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر ہی ایک ایسا مافیا گھسا بیٹھا ہے جو حکومت کی ساکھ عوام میں خراب کرنے‘ اسے غیرمقبول کرنے اور آئندہ انتخابات میں ناکامی سے دوچار کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ وہ حکومت سے ایسے فیصلے کروا کر ایسی پالیسیاں بنوا رہا ہے کہ جن کے منفی اثرات براہ راست عوام پر مرتب ہو رہے ہیں لیکن حکومت اس قدر مجبور محض بنی ہوئی ہے کہ ان پالیسیوں پر بلاسوچے سمجھے عمل کئے جا رہی ہے۔ یہ رویہ اور سوچ بہرحال ایک سیاسی حکومت کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ حکومت کو زمینی حقائق کے پیش نظر اپنے رویے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے قبل متبادل راستے بھی تلاش کرنے چاہئیں تھے۔ اور عوام الناس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تھا ورنہ یہ تاثر عوام کے دلوں میں رفتہ رفتہ پختہ ہوتا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت محض خالی نعرے لگاتی اور وعدوں کے سبزباغ دکھاتی ہے۔ عملاً اسکے پاس کوئی قابل عمل منصوبہ یا پلان نہیں ہے جس پر عمل درآمد سے عام آدمی کو بھی ریلیف مل سکے اور وہ بھی سکھ کا سانس لے سکے۔