بھارتی گجرات (نوائے وقت رپورٹ‘ اے پی پی) بھارتی گجرات حکومت کی جانب سے فروری، مارچ 2002ء میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے اور اس کے خاندان کے افراد کے بہیمانہ قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو رہا کرنے کے بعد پورے ملک میں اشتعال اور غم و غصہ پھیل گیا۔ رپورٹ کے مطابق حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں نریندر مودی کی سیاست پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا وزیراعظم کو اس طرح کی سیاست کرنے پر شرم نہیں آئی؟۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سرگرم گروپس اور این جی اوز نے بھی سپریم کورٹ سے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی ہے۔ ان کے ریپ اور 3 سالہ بیٹی کے قاتلوں کی رہائی کے فیصلے کا صدمہ بلقیس بانو کیلئے دل چیر دینے والا دکھ ہے۔ اپنے ایک بیان میں بلقیس بانو نے کہا کہ 2 روز قبل 15 اگست 2022ء کو جب میں نے سنا کہ میرے خاندان‘ میری زندگی کو تباہ کرنے اور میری 3 سالہ بیٹی کو مجھ سے چھیننے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کو بری کر دیا گیا ہے تو 20 برس قبل ہونے والا سانحہ ایک بار پھر مجھ پر گزر گیا۔ بلقیس بانو نے کہا کہ میرے پاس اپنی تکلیف کے اظہار کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ میں ابھی تک صدمے میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ کسی بھی عورت کیلئے انصاف اس طرح کیسے ختم ہو سکتا ہے؟۔ میں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں پر اعتماد کیا۔ نظام پر بھروسہ کیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں گجرات حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ اس فیصلے کو ختم کرے۔ مجھے بلا خوف‘ سکون کے ساتھ جینے کا میرا حق واپس کیا جائے۔ براہ کرم میری فیملی اور میرا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ امریکہ میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی فار پیس اینڈ جسٹس نے متاثرہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے اہل خانہ کے قتل میں ملوث 11 مجرموں کی سزائوں کی معافی پر امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس کھلے خط میں انسانی حقوق کی تنظیم نے اجتماعی عصمت دری اور قتل میں ملوث مجرموں کی سزا معاف کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کو بھارت میں انصاف کی طلبگار عصمت دری کا نشانہ بننے والی ہر خاتون اور گجرات فسادات کے متاثرین کے منہ پر ایک طمانچہ قرار دیا ہے۔