امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری

امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ایک با عمل عالم ، بے باک و نڈر شخصیت کے مالک دینی و سیاسی رہنما ہونے کی حیثیت سے مجلسِ احرار اسلام کے بانی تھے۔ آپ 1891 ء  ہندوستان پٹنہ میں پیدا ہوئے ، شاہ صاحب کا آبائی گائوں موضع نا گڑیاں ضلع گجرات پنجاب پاکستان تھا ، آپ کے والدِ محترم مولوی ضیاء الدین احمد تبلیغ کے سلسلہ میں پٹنہ میں ہی مقیم رہے ، برِ صغیر پاک و ہند میں جب بھی کوئی شقی القلب ختمِ نبوت سے منکر ہوا یا نبوت کا دعویدار بن کر ختم ِ نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تو محافظَ ختم ِ نبوت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ختم ِ نبوت کا بھر پور تحریری اور تقریری طور پردفاع کیا، 21 ، اگست 1961 ء  میں محافظِ ختم ِ نبوت سید عطا اللہ شاہ بخاری کے وصال کے بعد انہیں ملتان میں سپردِ خاک کیاگیا۔
محافظِ ختم ِ نبوت سید عطا اللہ شاہ بحاری  نے 1950ء  میں ختم نبوت کی حفاظت کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ ختم ِ نبوت کی حفاظت میرا جزوایمان ہے جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا ، جی نہیں چوری کا حوصلہ کرے گا میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا ، میں آپ  کے سوا کسی کا نہیں نہ اپنا نہ پرایا، میں صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوں وہی میرے ہیں جن کے حسن و جمال کو خود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو میں ان صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لیتے ہیں لیکن (چوروں)سارقوں کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں ‘‘۔ 
 1953 ء میں محافظِ ختم نبوت سکھر جیل میں قید تھے اور حکومت قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کے لئے عمل پیراء تھی ، لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس منیر کی سربراہی میں کیس کی سماعت کے دوران حکومت وقت نے شاہ صاحب کوختم ِ نبوت پر بیان ریکارڈ کرانے کے لئے سکھر جیل سے لاہور کی سینڑل جیل منتقل کیا، سماعت انتہائی کشیدہ ماحول کا منظر پیش کر رہی تھی جسٹس منیر کا رویہ معتصبانہ تھا ، ایک موقع پر جسٹس منیر نے محافظِ ختم ِ نبوت سید عطا اللہ شاہ بخاری سے تندو تیز لہجے میں استفسار کیا کہ ’’ آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ؟‘‘محافطِ ختم ِ نبوت نے کہا میں اس سوال کا آرزو مند تھا ، بیس برس پہلے یہ ہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں یہاں چیف جسٹس ڈگلس ینگ تھے ، اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں وہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے ، یہی سوال مجھ سے پوچھا گیا تھا، وہی جواب آج پھر دہراتا ہوں ِ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ مرزا کو کافر کہا ہے ، اور کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں کافر کہتا رہوں گا ، یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اورا سی پر مرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس منیر نے انتہائی غصے میں پوچھا اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے ؟ امیر شریعت نے کہا ’’ میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے ‘‘ 
 شاہ صاحب بلا شبہ برِ صغیر پاک وہند کے سب سے بڑے خطیب اور مبلغ تھے ، ان کی ساری زندگی تحفظِ ختمِ نبوت کی آبیاری کرتے ہوئے گزری ، بقول امیرِ شریعت آدھی زندگی جیل میں اور آدھی ریل میں اس مقدس مشن کو ادا کرتے ہوئے گزری،آپ نے مجموعی طور پر 18 سال جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں بر داشت کیں ، امرتسر 1918 ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کاایک مشترکہ جلسہ ہوا،جو کہ تحریک خلافت کی حمایت میں منعقد ہوا تھا اسی جلسے سے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا کرنے والے امیر شریعت نے سارے ہندوستان کے دورے کئے ،
 خطابت کا بے پناہ جوش و جذبہ قدرت نے تفویض کر رکھا تھا کہ لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے جوق در جوق چلے آتے تھے ، اردو اور فارسی پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ان زبانوں میں ہزاروں اشعار ازبر تھے اور خود بھی شاعر تھے۔
سر زمین ِ ہندوستان پر بیک وقت چار خطیب اپنی خطابت کی وجہ سے ہر خاص وعام میں مقبول تھے ، پہلے خطیب مولانا ابوالکلام آزاد، دوسرے مولانا احمد سعید دہلوی ، تیسرے خطیب مولانا شبیر احمد عثمانی اور چوتھے خطیب مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری تھے ،امیر شریعت کے علاوہ کسی دوسرے ایک بھی خطیب کی نظیر عالم ِ اسلام میں نہیں تھی ، یہی وجہ تھی کہ سید عطا اللہ شاہ بخاری کو قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ قوت و طاقت ، فراست و تدبر ، شجاعت و جرآت، بلندی آواز، خوش گلوئی قرآنِ کریم کے ساتھ قلبی تعلق اور فضا کو تسخیر کر دینے والی بلند آواز کا حسن ِ کمال بخشا تھا ، انہی صفات کی وجہ سے امیر شریعت کو ہندوستان میں خطابت کے آئمہ اربعہ میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل تھا۔
مولانا محمد حنیف ندوی  لکھتے ہیں کہ ’’ شاہ جی اردو بولتے تو معلوم ہوتا تھا کہ غالب اور داغ نے شاعری چھوڑ کر خطابت اختیار کر لی ہے ، اور پنجابی میں تقریر کرتے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ چناب اور راوی نے اپنی روانیاں انہیں بخش دی ہیں۔ 
امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے اپنی خطابت سے اردو زبان کی توسیع و ترویج اور اس کی تعبیر و تفہیم سے اس زبان کا عوام سے رشتہ مستحکم بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
عصرِ حاضر میں اس امر کی اہم ضرورت ہے کہ امیرِشریعت ِ سید عطا شاہ بخاری کی سحر انگیز خطابت کے ضمن میں تحریر و زبان سے نوجوان نسل کو روشناس کرایا جائے ،لیکن حیف ہے کہ آج قوم کے مشاہیر اور عہد ساز ہستیوں کے انقلابی خدمات کا باب بھی تحریروں، مرکزی اور دیہی جرائد سے غائب ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن