متنازعہ صدارتی ایوارڈز پر شدید رد عمل

ڈاکٹرعارفہ صبح خان             
تجا ہلِ عا رفانہ     
 صدارتی ایوارڈز پاکستان کے سب سے اعلیٰ و ارفٰع ایوارڈزہیں لیکن کئی سالوں سے یہ ایوارڈز نا صرف متنازعہ بلکہ نا پسندیدہ قرار دیئے جارہے ہیں۔ اس مرتبہ سو سے زائد افراد کو یہ ایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر شدید عوامی رد عمل سامنے آیا ہے۔ لوگوں نے ان ایوارڈز کا مضحکہ اڑایا ہے۔ سو سے زائد ان ایوارڈز میں بمشکل دس بارہ ایوارڈز حقداروں کو ملے ہیں۔ باقی ایوارڈز متنازعہ ہیں۔ جن کو یہ ایوارڈز دئیے گئے ہیں۔ جیوری اور کیبنٹ اُن کی توضیح پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وزراءکو یہ اختیار ہی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ملک کے اتنے بڑے اور اہم ایوارڈز میں ٹا نگ اڑائے۔ کابینہ میں بیٹھے وزراءکی اپنی ذاتی قا بلیت مشکوک ہے۔ اکثر کی ڈگریاں حقیقی نہیں ہیں۔ میں نے مشرف دُور میں خواتین کی جعلی ڈگریوں پر لاہور ہائی کورٹ میں ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ سے کیس کروایا تھا تب مجھے حقائق معلوم ہوئے کہ گریجویشن کی ڈگریاں جمع کرانے والوں نے تو میٹرک بھی نہیں کیا ہے۔ اس وقت بھی کابینہ میں تین چار وزراءکے علاوہ سب کی ڈگریاں جعلی اور مشکوک ہیں۔ جن لوگوں نے زندگی میں کبھی مطالعہ نہیں کیا ۔ علم حا صل نہیں کیا۔ کبھی کتاب کُھول کر نہیں دیکھی۔ وہ ہم جیسے تعلیم یافتہ، تجربہ کار، ذہین و فطین اور عالی دماغ رکھنے والوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ جنھیں علم و ادب، تعلیم سائنس ٹیکنالوجی انجینئرنگ کا ککھ پتہ نہیں۔ ایوارڈز کا فیصلہ اُن سے کرایا جارہا ہے جو یہ نہیں بتا سکتے کہ کالم لکھنے کے کیا اصول ہیں اور صحافت کے کیا معنی ہیں۔ مزاح نگاری کیا ہوتی ہے اور انشائیہ کسے کہتے ہیں۔ ہائیکو کہاں کی صنف سخن ہے؟؟؟علمِ ارضیات اور علم فلکیات کیا ہوتاہے ۔ شطرنج کیسے کھیلا جاتا ہے؟ڈاکومینٹری اور آرٹ فلم کیا ہوتی ہے؟ خلا نورد کیسے خلا میں جاتا ہے؟ زمین کیسے گردش کرتی ہے اور معیشت کو کیسے سنبھالا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاست اور اقتدار میں رہ کر انھیں پولیٹکل سائنس کے متعلق کو ئی علم نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کی کم علمی، بے بضاعتی اور کج فہمی کا یہ عالم ہے کہ اُنھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ریاست میں حکمرانوں کے بعد علم و ادب، تعلیم و تحقیق، طب اور معیشت کا نمبر آتا ہے۔ کھیل کود تماشے تو امیر کبیرخو شحال قوموں کے چو نچلے ہیں جب پچیس کروڑ عوام میں سے چوبیس کروڑ عوام بھوک سے مر رہی ہوں تو کس پاگل کے بچے کو کرکٹ ہاکی سکوائش فٹبال یا جیولن تھرو سے رغبت ہو گی۔ کو ن آدمی اپنے بچو ں کو بھوکا پیاسا مار کر سینما میں مہوش حیات یا کبریٰ خانم یا سجل علی ہانیہ عامر کی فلمیں ڈرامے دیکھے گا۔ ان وزیروں نے کبھی علم حا صل کیا ہوتا تو انھیں پتہ ہوتا کہ بھوک غربت افلاس کیا ہو تا ہے اور نظیر اکبر آبادی نے روٹی بھوک آدمی پر کیا کیا لکھا ہے۔ یہ وزیر پاکستان کے 25 کروڑعوام میں سے اعلیٰ ترین اذہان کا انتخاب کریں گے جن کے اپنے دماغوں کا وزن رتی اور ماشے کے برابر ہے۔ مجھے کو ئی ایک وزیر انسان کے دماغ کا اوسط وزن بتا دے تو خد ا کی قسم ، میں ان ایوارڈز کو سرسے اُتار کر پھینک دوں۔ کس نے ان مجہول افراد کو یہ حق دیا ہے کہ یہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمیا فتہ، ذہین و فطین، اعلیٰ و ارفع شخصیات کے ساتھ کھلواڑ کریں۔ کیا ان ایوارڈز کو سپریم کورٹ میں چیلنچ نہیں کر دینا چا ہیے۔ میں حیران ہوں کہ صدرِ مملکت ملک کے سب سے بڑے ایوارڈز کا جائزہ لیے بغیر کیسے اعلان کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری ایک با شعور اور سمجھدار صدر ہیں۔ انہوں نے دو نمبر لسٹ کیسے جانے دی۔ جو نام فا ئنل ہو کر کابینہ کے سامنے رکھے گئے۔ اصل نام اور کام اُسی لِسٹ میں تھے مگر عین وقت پر اپنے گماشتوں کے نام ڈال دئیے گئے۔ آصف علی زرداری کو فوری ایکشن لینا چا ہیے کہ اُنکے نام پر اور اُنکی صدارت میں ایوارڈز میں جو دھاندلی کی گئی ہے جو جعلسازی، سفارش، اقربا پروری اور شعبدہ بازی کی گئی ہے تو نجانے کتنے حقداروں کا حق مار کر ایسا کیا گیا ہے۔ یہ سار ا ملبہ انتہائی چا لاکی سے کابینہ نے آصف زرداری پر ڈالا ہے تاکہ صدرِ پاکستان کو متنازعہ بنا کر انھیںبدنام کیا جائے۔ پوری کابینہ ن لیگ کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا تو ایک بھی آدمی شامل نہیں۔ اس طرح ایوارڈز لِسٹ کو پراگندہ کر کے صدرِ مملکت کو گندا کیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈز اسقدر متنازعہ ہیں کو پوری قوم کا شدید رد عمل سا منے آیا ہے۔ سب احتجاج کر رہے ہیں بلکہ اکثریت کورٹ میں جانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو اصولاً از خود نو ٹس لینا چا ہیے کیونکہ یہ قومی ایوارڈز ہیں کو ئی کھیل تماشہ نہیں ہے نہ کسی کی اجارہ داری ہے۔ ہماری ساری زندگیاں ملک و قوم کی خدمت کرتے اپنی فیلڈ میں مہارت اور محنت کرتے گز رجاتی ہے۔ ان ایوارڈز کے حقدار صرف اور صرف ہم لوگ ہیں جو اپنی زندگی کے سنہرے برسوں میں قربانیاںدیتے، انتھک محنت کرتے اور ملک و قوم کو ترقی دیتے ہیں۔ زندگی کے چالیس پینتالیس پچاس ساٹھ سال رات دن کام کر کے اور وطن عزیز کا نام روشن کر کے بھی ہمیں ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔ حکومت ثا بت کرے کہ جن سفارشیوں اور اقرباپروروں کو یہ ایوارڈز دئیے گئے ہیں۔ کیا وہ حق بجانب ہیں۔ میری اعلیٰ عدالتوں سے استدعا ہے کہ وہ از خود نوٹس لیں۔ قومی ایوارڈز کے ساتھ یہ بھیانک مذاق قوم کے لیے نا قابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ جیوری اور کابینہ بتائے کہ جاوید جبار نے کیا ادبی علمی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ہر مرتبہ جاوید جبار کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے جیسے افتخار عارف کو بار بار اعزازات، انعامات اور صدارتی ایوارڈ دیا جاتا رہا ہے۔ اِن لوگوں کی کارکردگی یا ادبی کارنامہ پیش کر ے کہ آخر کیا قومی سطح یا بین الا قوامی سطح کی کارکردگی دکھائی۔ بچارے ناصر کاظمی کو 52سال بعد ایوارڈ دے کر یہ ثا بت کیا ہے کہ اتنے برس جا ہل حکومتیں رائج تھیں۔ ناصر کاظمی مرحوم کیا قبر سے آکر وصول کریں گے؟ ادب میں سلمیٰ اعوان کا ایوارڈ جائز ہے کیونکہ اُنکا کام وقیع اور زندہ رہنے والا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے شہادتیں دیں۔ وہ بالکل جائز ایوارڈ ز ہیں۔ ایک نیزہ باز ارشد ندیم کو جیولن تھرو میں نیزہ پھینکنے پر پچاس کروڑ سے زائد رقم اور پلاٹ ، انعامات، پروٹوکول دیکر ہم سب کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ ہماری ساری زندگی کی محنت ریاضت اور ذہانت اکارت گئی۔ لوگوں نے اپنا کام اور مشنِ پورا کرنے میں چالیس پچا س سال لگا دئیے لیکن ارشد ندیم پانچ چھ سال کھیل کر آدھا ارب پتی بن گیا۔ اگر ایک آدمی کے لئے خزانے کے منہ کھولے جا سکتے لیں تو صدارتی ایوارڈیا فتگان کو بھی سوکھے ایوارڈز کے ساتھ فی کس ایک کروڑ انعام دیا جائے۔ اگر چہ یہ رقم بھی تھوڑی ہے۔ لائف ٹا ئم اچیومنٹ پر پانچ کروڑ انعام دیا جائے۔ جیو ری اور کابینہ نے بھنگ کھا کر یا ستو پی کر ایوارڈز کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس میں کئی شعبہءحیات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثلاً میڈیا کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا ہے۔ اگر میڈیاحکومت اور سیاستدانوں کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکے تو دو دن حکومت نہ چل سکے۔ آپ اقوام متحدہ، وہائٹ ہاﺅس یا ایوانِ وزیر اعظم میں جتنا مرضی چلّا چلّاکر تقریریں کر لیں۔ فو ٹو شوٹ کروا لیں یا وڈیوز بنوا لیں۔ میڈیا کے بغیر کسی کو پتہ بھی نہیں چل سکتا کہ آپ کو ن ہیںاور آپکی شناخت کیا ہے۔ کیا کام ہے اور کیا منصب ہے۔ میڈیا کے بغیر کو ئی حکمران سیاستدان سانس بھی نہیں لے سکتا لیکن آپ نے میڈیا کو ایوارڈز نہ دیکر میڈیا کا منہ چڑایا ہے جس کا جواب میڈیا کی طرف سے جلد ملے گا۔ صدرِ مملکت آصف زرداری کو چا ہیے کہ صدارتی ایوارڈز کی لسٹ کی درستگی کر یں کیونکہ سب آپ سے سوال کریں گے۔ ان معتبر ایوارڈز کو متنازعہ نہ بنائیں۔ یہ کو ئی تماشہ ہے کہ گزشتہ سال 800سے زا ئد ایوارڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹ دئیے گئے۔ 

ای پیپر دی نیشن