سید علی بن عثمان ہجویری ؒ کا 981 واں عرس مبارک

          آواز خلق 
          فاطمہ ردا غوری
سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے981 ویں عرس مبارک عقیدت و احترام سے منانے کی تیاریاں حکومتی سطح پر کی جا رہی ہیں سیف سیٹیز کے کیمروں سے سکیورٹی کے انتظامات کی مکمل نگرانی یقینی بنائے جانے کے لئے اقدامات جاری ہیں گذشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں عرس کے انتظامی امور کے جائزہ کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں وزیر خوراک بلال یاسین نے ہمراہ سیکرٹری اوقاف سید طاہر بخاری اور حال ہی تعینات ہوئے شہر لاہور کے ڈی سی سید موسی رضا نے سکیورٹی اور دیگر تیاریوں کے بارے میں بریفنگ دی اور ساتھ ہی ساتھ یقین دہانی کروائی کہ زائرین کے لئے گذشتہ سال سے بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی عقیدت مندوں کی کثیر تعداد کی آمد کے پیش نظر اطراف کی سڑکوں اور گلیوں کو بھی سجایا جائے گا ریسکیو پنجاب فوڈ اتھارٹی واسا ایم سی ایل لیسکو کی ٹیمیں اور چار ہزار سیکورٹی اہلکار عرس میں موجود رہیں گے 
 سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ درویشانہ باعمل زندگی سے متاثر ہو کر ہزاروں مردو عورت حلقہ بگوش اسلام ہوئے آپ تمام علوم دین، تصوف، فقہ کے ماہر سچے اور باعمل انسان تھے آپ نے یہ واضح کر دکھایا کہ جو شے ضروری ہے وہ محض پھٹے پرانے کپڑوں کی گدڑی پہن لینا اور درویشوں کی سی واضح قطع بنا لینا نہیں بلکہ دل میں خالق کی یاد بسی ہونی چاہیے اور تمام اعمال اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ کے فرمان اور سنت کے مطابق ہونے چاہےئں اس عظیم ہستی سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے آج سے کئی ہزار برس پہلے خاک لاہور کو قدم بوسی کا شرف بخشا ان ایام سے لے کر آج تک اس شہر کا وہ گوشہ جہاں آپ نے قیام فرمایا اور جسے بعد ازاں آپ کا مدفن کہلانے کی سعادت نصیب ہوئی مرجع خلائق چلا آ رہا ہے دنیائے اسلام اور دنیائے تصوف میں آپ کی معجزاتی ،با عمل اور گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 
سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب کشف ا لمعجوب فارسی زبان میں تصوف کی قدیم اور اہم کتابوں میں سے ایک ہے اس کی قدروقیمت کا اعتراف ہر زمانے میں کیا گیا بدقسمتی سے کشف المعجوب کا سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے دست مبارک سے لکھا ہوا یا ان کے کسی شاگرد یا مرید کا لکھا ہوا کوئی قلمی نسخہ دستیاب نہیں ہو سکا آپ کے زمانے کے حاسد لوگ قلمی نسخوں پر بڑے مظالم توڑتے رہے اپنی مرضی سے تحریفات کی جاتی رہیں کئی غلط باتیں آپ سے منسوب کی جاتی رہیں لیکن اس کتاب کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ تصوف عین اسلام ہے جدید دور میں روسی پروفیسر ژوکوفسکی اور ایرانی سکالر ڈاکٹر محمود عابدی کے مرتب کئے ہوئے نسخے تحقیقی محنت کے ساتھ شائع ہوئے ہیں 
قیام لاہور کے دوران سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی کرامات کے بارے دو روایات مشہورومعروف ہیں ایک یہ کہ ایک بڑھیا برتن میں تازہ دودھ لئے جا رہی تھی آپ نے اسے بلایا اور کہا کہ یہ دودھ قیمت لے کر مجھے دیدو اس بڑھیا نے کہا کہ یہ دودھ راجو جوگی کے لئے لے کر جا رہی ہوں ہم یہ دودھ اسے مجبورا پہنچاتے ہیں اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے جانور دودھ کی بجائے خون دینے لگتے ہیں آپ نے مسکرا کر فرمایا یہ دودھ مجھے دے جاﺅ خدا تمھارے گائے کے دودھ میں برکت دے گا آپ نے برتن میں سے دودھ پی کر باقی دریا میں پھینک دیا بڑھیا نے گھر آ کر شام کے وقت جب دودھ دوہا تو وہ معمول سے کچھ زیادہ تھا گھر کے سارے برتن بھر گئے کچھ ہی دیر میں یہ خبر پورے علاقے میں مشہور ہو گئی راجو جوگی کے ستائے ہوئے آپ کے پاس آنے لگے اور آپ کی دعاﺅں سے ان کے جانور زیادہ دودھ دینے لگے راجو جوگی کے کاروبار میں خلل آنے لگا وہ خود آپ کے پاس آیا اور کرامات کا مطالبہ کیا آپ نے فرمایا کہ” میں خدا کا عاجز بندہ ہوں ہاں اگر تم میں کچھ کمال ہے تو دکھاﺅ “یہ سن کر راجو جوگی ہوا میں اڑنے لگا آپ نے اپنا جوتا اچھالا تو وہ اس کے سر پر پڑنے لگا وہ نیچے اترا اور حلقہ بگوش اسلام ہوا یہی شیخ سرہندی ہیں جن کی روحانی تربیت حضرت مخدوم رحمتہ اللہ علیہ نے کی وہ آپ کی خدمت میں رہے اور آپ کے مزار کی مجاوری کی حضرت علی ہجویری جیسی باکمال شخصیت نے لوگوں کے دل بدل کر رکھ دیئے اور ان روایات کی صداقت کے لئے کسی قسم کے دلائل کی یقینا کوئی ضرورت نہیں ۔
دوسری روایت کے مطابق آپ نے لاہور میں اپنی قیام گاہ سے متصل ذاتی خرچ سے ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا محراب دوسری مساجد کی نسبت جنوب کی جانب جھکا ہوا تھا بعض علماءنے اعتراض کیا کہ اس کا رخ درست نہیں ¾ آپ نے تعمیر مکمل ہونے کے بعد سب کو بلوایا اور اپنی اقتداءمیں نماز پڑھوائی اور پھر محراب حرم میں سے سامنے دیکھنے کو کہا تو سامنے کعبتہ اللہ دکھائی دیتا تھا ان دونوں کرامات کے علاوہ کرامات حضرت مخدوم کی نشاندہی مختلف تذکروں سے کی جاسکتی ہے صاحب” سفینتہ الاولیا“ شہزادہ
دارا شکوہ لکھتے ہیں کہ سید علی بن عثمان ہجویری کے خوارق و کرامات بے شمار ہیں ایک مرتبہ غزنی میں ایک عالم نے لباس میں پیوند لگانے کو بدعت قرار دیا تو حضرت علی ہجویری نے فرمایا کہ بادشاہوں سے ریشم اور زری کے کپڑے جو تم عاجزی سے درخواست کر کے مانگ لاتے ہو انہیں تو جائز سمجھتے ہواور حلال ذرائع سے حاصل کئے ہوئے لباس کو پہننا بدعت قرار دیتے ہو!!!
 برصغیر کے کچھ اور اولیاءاللہ بھی حضرت مخدوم سے فیض یاب ہوئے ان میں خواجہ ہند کے نام سے مشہور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ¾ خواجہ مسعود الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ¾ خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ ¾ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ¾ شیخ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ ¾ حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ جیسے دیگر کئی نامور علمائے دین شامل ہیں 
کشف المعجوب کے علاوہ داتا صاحب کی تصانیف میں سے جن کتب کے نام ملتے ہیں ان میں منہاج الدین ¾ کتاب الفناوالبقا ¾ اسرار الخرق والموونات ¾ کتاب البیان لابل الحیان ¾ نحوالقلوب ¾ الرعایتہ بحقوق اللہ شامل ہیں ایک رسالہ یا کتاب” کشف الاسرار“بھی آپ سے منسوب کی جاتی ہے کشف المعجوب سے آپ کے ایک دیوان کا ذکر بھی ملتا ہے اور مزید دو کتابوں کا بھی پتہ چلتا ہے لیکن ان کتابوں میں سے بدقسمتی سے کسی کا قلمی نسخہ دریافت نہیں ہو سکا ہم تک صرف کشف المعجوب ہی پہنچی ہے جو ہر زمانے میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثل سمجھی گئی ہے فارسی زبان میں تصوف کی پہلی کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور اس کتاب کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاءکا ارشاد ہے کہ
   ” جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المعجوب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا “
یہ ایک ایسی صراط مستقیم دکھانے والی شمع ¾ جہالت شکن ¾ ایمان افروز کتاب ہے جس کے پڑھنے سے تشنہ طلب ،طالب حق علوم شریعت اور طریقت سے سیراب ہ شادکام ہوتا ہے اپنے تن من کو پاکیزہ، مجلی اور منور محسوس کرتا ہے اور شکوک و شبہات کے پردے اٹھ جاتے ہیں اس گنجینہ رشد و ہدایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تصوف کی دنیا میں انجیل اور زبور کی حیثیت رکھتی ہے 
حضرت سید علی ہجویری اواخر حیات تک لاہور ہی میں قیام پذیر رہے اور یہیں ابدی نیند سو رہے ہیں بیشترمحققین کے متفق ہونے کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے کہ آپ کا سال وفات 465 ھ ہے صاحبزادہ ابولعاصم محمد سلیم حماد سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ " ہماری خاندانی روایات کے مطابق آپ کا وصال ۹ محرم الحرام 465 ھ کو ہوا اور اسی دن ہر سال غسل مزار کی تقریب بھی منعقد ہوتی ہے " 
آپ کے وصال کے بعد مزار زیارت گاہ ِخلائق بن گیا حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی قبر مبارک پر چلہ کیا اور جب مدت ختم کر کے رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا 
                 گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
                ناقصاں را پیر کامل ¾ کاملاں را رہنما
 اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ تحریفات اور نقائض سے بچتے ہوئے ”کشف المعجوب“ کی صورت میں جو تحفہ ہم تک پہنچا ہے اس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ عمل کر کے زندگی اور آخرت سنوار سکیں اور ان لازوال حروف کا اور قرطاس پر اتارنے والے کی زندہ و تابندہ خدمات کا حق ادا کر سکیں 
                 (وما علینا الا البلاغ)

ای پیپر دی نیشن