marwahkhan@hotmail.com
مروہ خان میرانی
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور پھر کلمہ طیبہ پورا ہوا محمد رسول اللہ، نبیِ پاک کی نظرِکرم اس پیاری سرزمین پر پڑی۔اس کی بشارت قائد اعظم کو خواب میں خود حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تشریف لا کر دی۔
پاک نبی کی پاک نظرِ کرم سے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ یعنی کہ ہم سب کا پیارا پاکستان وجود میں آیا۔ ہمیشہ سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان اپنے نازک دور سے گزر رہا ہے، اس سے زیادہ نازک دور کیا ہوگا جس نازک دور سے گزر کے یہ خود وجود میں آیا۔ اس پیاری سرزمین کے مستقبل سے مایوسی کیسی؟ جو کہ حاصل ہی ہمارے بزرگوں نے اپنے آپ کو لٹوا کر، ماروا کر، خون کی، خاندان کی، مال کی جان کی قربانی دے کر کیا ہو۔ تو اس دور کی سختیاں سہنا ہمارے لیے اتنا مشکل کیوں؟
آج ہم شکوے شکایتیں، رونے دھونے، مایوس ہونے ملک چھوڑنے، امید ٹوٹنے سے زیادہ امید باندھنے اور اس کا حل تلاش کرنے اور پاکستان کو بہتر بنانے کی طرف عہد کریں گے۔ ناصرف وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اندھیروں سے نکلے گا بلکہ ایک روشن ستارہ بن کر پوری دنیا میں چھائے گا انشاء اللہ۔ یہ میں نہیں ہمارے پیارے آقا نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بشارت ہے کہ جنہوں نے فرمایا کہ مجھے مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ہواو¿ں کا احساس ہوتا ہے (مستدرک حاکم)۔ یہ ٹھنڈی ہوائیں ہمارے اپنے آقا سے عقیدت و محبت، فرمانبرداری اور وفاداری کی ہیں۔ جب ہم نے اس کو پورا کر لیا تو انشاء اللہ ہم ہی وہ امت ہوں گے جن کی خوشبو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم محسوس کیا کرتے تھے۔
ہمارا کام صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے نہ کہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا کہ ایک حکمران آیا دوسرا گیا پیچھے والے نے یہ کیا آگے والے نے یہ کیا، فلاح حکومت نے ملک ڈبو دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق کیا کیا۔؟ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے گریبان میں کوئی جھانکنا پسند نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دیں اپنی نیتیں صاف کرنا شروع کر دیں تو ہمارا ملک خود بخود خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ ہماری ذمہ داری کیا ہے اس کا بھی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ
"تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے, چنانچہ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ سماج میں رہنے والے ہر مسلمان کی ذمہ داریاں ہیں جو اسے اٹھانی ہوں گی۔ (صحیح)
سب کچھ حکمرانوں پہ چھوڑنے سے پہلے قرآن پاک کی اس آیت اور اس کا مفہوم اس زیر غور فرمائیے.
"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناءکی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"۔
(سورہ بقرہ: آیت 30)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہاں پہ انسانوں کو اپنا خلیفہ/ نائب قرار دیا۔ اس کی دو تفاسیر ملتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہا جاتا ہے کہ فرشتوں نے جب اللہ تعالیٰ سے کہا کہ انسان زمین میں فساد پھیلائیں گے کیونکہ انہوں نے زمین پہ انسانوں سے پہلے جنات کو فساد پھیلاتے ہوئے دیکھا۔ تو فرشتوں کو بھی یہ لگا کے انسان ایسے ہی کریں گے۔ جبکہ دوسری طرف خلیفہ اور خلافت دو طرح کی ہوتی ہیں مفسرین کے مطابق پہلا خلیفہِ خاص جو کہ انبیاء اسلام ہیں جن کی ذمہ داری تھی اللہ سبحانہ و تعالی کے دین کو پھیلانا اور ان کا نظام نافذ کرنا اور دوسرا خلیفہِ عام جو کہ ہر عام آدمی جس کے اوپر یہ لاگو ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکامات کے اوپر چلے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب کرے۔
جب خلافت کی بات آتی ہے تو خلافت کے ساتھ اختیار بھی اس کو سونپا جاتا ہے۔ تو خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو اس کو اختیار دیا گیا ہے اس کو وہ صحیح معنوں میں استعمال کرتا ہے یا غلط معنوں میں۔ خیر میں یا شر میں۔ پھر ہم کس طرح اللہ کے اس فیصلے کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ جس کا اختیار ہمارے اپنے نفس کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔
ہر صاحبِ استطاعت اپنے ساتھ ساتھ کسی ایک غریب خاندان کی کفالت کا ذمہ لے لے اپنے اخراجات کم کر کے تو بہت جلد پاکستان اس صورتحال سے باہر نکل سکتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارا حرض و ہوس، دولت، لالچ اور عیش و آرام کی زندگی گزارنے کا ہے۔ لبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
”ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش (فتنہ) مال میں ہے“۔ (ترمذی)
آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک دوسرے سے دولت میں آگے نکل جانا اعلی گھر اعلی گاڑی اعلی کپڑے اعلی کھانا سب کچھ اتنا اعلی کہ عام لفظ کی زندگی میں گنجائش ہی نہیں رہی۔ اور اگر عام پہ گزارا کرنا پڑ جائے تو ایسی زندگی ہمیں قبول نہیں۔ چاہے پھر رزق حلال سے آئے یا حرام سے ، پر رزق کی فراوانی ہونی چاہیے۔ اور اس ملک کو چھوڑ کے دوسرے ملک میں جا کر بسنا کیونکہ یہ ہمارا پیارا وطن رہنے کے قابل نہیں رہا۔ تو اس کو رہنے کے قابل بنانا کس نے ہے چند ایک حکمرانوں نے یا پھر عوام کی کثیر تعداد نے جبکہ قرآن میں اللہ رب العزت فرماتا ہے
"اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"- (سورہ عنکبوت: 62)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی۔ (مسلم)
لیکن ہماری بد قسمتی ہم نے اپنی کامیابیوں کو مال سے جانچنا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ خوش قسمتی یہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان کی طرف سے بے خوف ہو، جسمانی اعتبار سے صحت مند ہو، ایک دن کی خوراک کا سامان اس کے پاس ہو، تو گویا اس کے لیے ساری دنیا جمع کردی گئی“۔ (ابن ماجہ)
جبکہ ہم لوگ بحیثیت قوم حضرت شعیب علیہ السلام کی قومِ مدین جیسے ہوتے چلے جارہے ہیں نعوذ باللہ۔ جو کہ پیسوں اور مال و دولت کی خاطر دھوکا دہی، فریب اور کرپشن میں مبتلا ہو کر بربادی کی طرف بڑھے اور خوفناک عذاب سے غرق ہو گئے۔ یہ تو صدقے جائیے اپنے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جنہوں نے اپنے رب تعالی سے وعدہ لیا کہ ان کی امت پر کبھی پچھلی قوموں کی طرح قیامت تک عذاب نازل نہیں ہوگا۔ اگر ہم سلامت ہیں، تو اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے۔
ہم اپنی زندگی میں اپنے حصے کا بیج بو دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس درخت کے سائے میں بیٹھ سکیں۔ نہ کہ ہم ان لوگوں میں سے ہو جائیں جنہوں نے درخت ہی اکھاڑ چھوڑے۔ اور دھوپ کو چھاو¿ں پہ نازل ہونے دیا۔ انگریزی کی بڑی مشہور کہاوت ہے کہ مخلوق کی خدمت کرنا اصل میں اس دنیا میں رہنے کا کرایا ہے جو کہ ہم ادا کرتے ہیں۔
میں یہاں بہت سارے پاکستانیوں کا ذکر کرنا چاہوں گی جو اس مشکل وقت میں بھی نہ صرف پاکستانیوں کی مدد کر رہے ہیں بلکہ اس مشکل وقت میں دکھی لوگوں کے لیے سکون اور خوشی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور سرکار کے سہارے کی بجائے خود سہارا بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور میں ان کی چشم دید گواہ ہوں کہ مجھے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو کوئی بھی غریب مریض ملے اس کو ہم تک پہنچائیں ہم اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں یہ ہمارے لیے باعث فخر ہوگا۔ ڈاکٹر قاسم لطیف چودری، ڈاکٹر امتیاز حسن، ڈاکٹر نبیلہ، ڈاکٹر رکخشندا، ڈاکٹر طلحہ، ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طیب پاشاہ، ڈاکٹر نادیہ، ڈاکٹر کامران بٹ، ان گنت ڈاکٹرز جنہوں نے اب تک بے تحاشہ مریضوں کا مفت علاج کیا اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ غریبوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں جن میں مسز ربینہ، سائرہ پرویز، فرا دیبا، زاے علی جیسے نام ہیں۔ مسرت مصباح صاحبہ جو کہ اس ملک کی جلی ہوئی عورتوں کے لیے ایک واحد مرہم ہیں۔ ڈاکٹر آصف جاہ صاحب جو کہ مفت علاج کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر اس علاقے میں پہنچ کر پانی پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی زمانے میں ناممکن لگتا تھا۔ لنگر کے لیے بے تحاشہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ کسی بھی ناگہانی سیلاب جیسی آفت اور سرکار سے پہلے خود مدد کو پہنچ جاتے ہیں جو اپنے حصے کا کام بخوبی نبھا رہے ہیں اور نبھانا جانتے ہیں۔ بزرگوں سے سنا ہے جو لوگ اپنی بستی کے خدمت گزار ہوتے ہیں وہی اصل لیڈر ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے حالات اب تک نہیں بدل رہے تو اس کی وجہ حکومتیں نہیں بلکہ ہماری نیتیں اور ہمارے اعمال ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کسی کو اللہ تعالی نے نگرانی سپرد فرمائی پھر اس نے ان کی خیر خواہی کا اچھا خیال نہ رکھا تو یہ بندہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگ سکے گا"- (مشکٰوة)
اللہ ہمارے نگرانوں کے اوپر بھی نگہبان ہے۔ رب تعالی سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے بارے میں سن لیجئے
حضرت ابودرداءکہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی ) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضہ قدرت) میں ہیں؛ لہٰذا جب میرے (اکثر ) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاو¿ں۔" اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب حلی الاولیاءمیں نقل کیا ہے۔"
حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکام بھی خراب ہوں گے۔ حدیث کی روح سے یہ ہمارے ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم سختی سے گزر رہے ہیں۔ قومِ یونس کو یاد کیجئے جب حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے افسردہ ہو کے چل پڑے اور ان کے پیچھے پوری قوم اللہ کے حضور جھک گئی اور معافی کی طلبگار ہوئی تو اللہ رب العزت نے نہ صرف ان کو معاف فرمایا بلکہ ان کا نبی ان کو عطا کیا۔
چونکہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے جب ایک اسلامی جمہوریہ مملکت غیر اسلامی کاموں میں مبتلا ہو جائے تو زوال خود بخود نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی خیر و بقا اسی چیز میں ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کی پیروی کریں جس کے نام پہ یہ ملک لیا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا قول
"There is no power on earth that can undo Pakistan"
یہ سٹیٹمنٹ انتہا درجے کے ایمان و توکل کی عکاسی کرتی ہے کہ کوئی تو اشارہ ہمارے محسن کے پاس ایسا موجود تھا جس کی بنا پہ انہوں نے اتنی بڑی پیشنگوئی کی اور وہ اشارہ پاکستان کا 27 رمضان کو بننا ہے جو کہ بار بار اس چیز کی طرف یاد دہانی کرتا ہے کہ اس سرزمین کی حیثیت سوائے اسلام کی صحیح رکھوالی اور پیروی قرآن و سنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس یوم آزادی کے دن اپنے آپ سے عہد کیجئے کہ اپنے آپ کو صراط مستقیم پہ چلانے کے علاوہ اپنے پاکستان کو آپ اور کوئی بہتر تحفہ عطا نہیں کر سکتے۔ رہی بات ہمارے پیارے پاکستان کی۔ تو میرا بھی یہ ایمان ہے۔
نظرِ کرم ہو جس وطن پر حضور کی
وہ زمین کبھی اجڑا نہیں کرتی