کھیل کا آخری اوور اور آخری بال؟

 گلوبل ویلج                

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کی سیاست آج بھی عمران کے گرد گھوم رہی ہے۔ عمران خان کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔وہ جیل میں ہیں۔ جیل میں بھی مخالف سیاستدانوں کو عمران خان وارے میں نہیں ہے۔ جنرل فیض حمید گرفتار ہوئے۔ اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں دو باتیں کی گئی تھیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ جنرل فیض حمید ٹاپ سٹی کے معاملات میں ملوث تھے۔ ٹاپ سٹی کے مالک معیز خان نے ان کے بارے میں چار پانچ سال پہلے شکایت کی تھی۔ بہرحال سپریم کورٹ کے کہنے پرآج ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔انویسٹی گیشن ہوئی اور انویسٹی گیشن کے نتیجے میں ان کی گرفتاری ہوئی اور دوسرا آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا تھاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جنرل فیض حمید آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی میں ملوث ثابت ہوئے۔ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ثابت ہونے کے۔ یہ دو چیزیں تھیں جن کی بنا پر ان کو حراست میں لیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ ان کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔یار لوگوں نے زیب داستان کے لیے بہت کچھ اپنی طرف سے بھی اس میں شامل کر لیا۔آئی ایس پی آر کی طرف سے جو کچھ کہا گیا تھا وہی فائنل تھا لیکن اس کے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ملک اکرم کو بھی گرفتار کیا گیا اس سے پہلے ان کا اڈیالہ جیل سے تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ان کو حراست میں لیے جانے کے دوسرے تیسرے روز ان کے چھ مزید ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس کے ڈانڈے بھی جنرل فیض حمید سے ملاتے ہوئے یہی کہا گیا کہ یہ ایک سازش ب±ن رہے تھے۔
 عمران خان کو جیل کے اندر کیا کیا سہولتیں ان کی طرف سے دی جا رہی تھیں۔ کسی واٹس ایپ گروپ کی بھی بات ہوئی کہ عمران خان کی واٹس ایپ گروپ بنا کر بیرون ملک لوگوں کے ساتھ بات کروائی جاتی تھی یا پیغام بھیجوائے جاتے تھے۔ کل سارا دن یہ ہیجان خیز خبر چلتی رہی کہ سابق آئی جی جیل شاہد سلیم بیگ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شام کو ان کی طرف سے ایک چھوٹی سی ویڈیو بنا کر وائرل کی گئی انہوں نے کہا میں تو گھر بیٹھا چائے پی رہا ہوں۔ا ن کی گرفتاری کی خبر بالکل جھوٹی تھی جو سارا دن ٹی وی پر چلتی رہی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باقی خبریں اس طرح کی ان میں کتنی صداقت ہو سکتی ہے۔
 عمران خان جیل میں بیٹھے ہوئے بھی آج کے مقتدر لوگوں کے لیے وارے میں نہیں ہیں تو عمران خان کو پھر آپ نے کہاں آگے بھجوانا ہے۔ 
عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ،پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تو ان کی طرف سے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ 16روپے والی عمران خان کی بجلی کو 12روپے یونٹ پر لائیں گے لیکن یہ بڑھتے بڑھتے 80روپے یونٹ تک بجلی چلی گئی۔میاں نوازشریف کی طرف سے 14روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا گیا اور وہ بھی صرف دو مہینے کے لیے۔ اگر آپ نے عمران خان کو مات دینی ہے ،عمران خان کا مقابلہ کرنا تو پہلے بجلی 16روپے پر لائیں اس کے بعد جو آپ ریلیف دیں گے اس کو عوام حقیقی ریلیف سمجھیں گے۔ میاں نوازشریف کی طرف سے اپنی پریس کانفرنس میں کہا گیا مہنگائی کے ذمہ دار وہی ہیں جو آج جیل میں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہیں۔ ہم نے تو آئی ایم ایف کو واپس بھجوا دیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی، آئی ایم ایف کو واپس لائے۔حالانکہ پاکستان سے آئی ایم ایف کا اگر عمل دخل کسی دور میں کم رہا ہے ،ایوب دور کے بعد تو وہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا اس سے پہلے اور اس کے بعد آئی ایم ایف کی پاکستان میں نہ صرف یہ کہ دخل اندازی بلکہ اس کی اجارہ داری رہی ہے۔
میاں نوازشریف نے پھر سوال پوچھا کہ میں آج پھر پوچھتا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا اس کے ساتھ ہی میاں نوازشریف نے خود ہی اس کا جواب دے دیا کہ مجھے اس لیے نکالا کہ پینتیس روپے کلو والاآٹا آج کتنا مہنگاہو گیا ہے۔یہ میاں نوازشریف صاحب کی طرف سے اپنے نکالے جانے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔
آج کی حکمران پارٹی مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور ان کی ساتھی اتحادی جماعتیں عمران خان کے لتے لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں حالانکہ عمران خان جیل میں ہیں تو جیل سے آگے ان کو اورکہاں پر پہنچایا جائے گا ،پھر ان کو فکس کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔اس سے زیادہ عمران خان کو کیا فکس کریں گے ان کے جیل والے کمرے میں ایک تو وہاں پر اتنی ہی جگہ ہے جس پر وہ پاﺅں پسار کر نہیں لیٹ سکتے ان کو فریج اور اے سی کی سہولت تو کیا ہونی ہے پنکھا جو لگایا گیا ہے وہ بھی ہاتھ سے ہی شاید گھمایا جاتا ہوگا تو اس کے باوجود بھی عمران خان کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک سول آفیسر کا ڈی سی سے پھڈا ہو گیا اس پر اس افسر کو پاکستان کے آخری شہر ایران کے بارڈر کے قریب تفتان ٹرانسفر کر دیا گیا ۔تبادلہ کے احکامات اس افسر کو ہاتھ میں تھماتے ہوئے ڈی سی صاحب نے کہا کہ تفتان میں بھی کوئی ایسی غلطی نہ کر دینا کہ آپ کی سزا میں اضافہ ہو جائے۔افسر نے کہا۔ سر آپ مجھے تفتان سے آگے کہاں بھیجیں گے، آگے تو ایران ہے۔ برائے مہربانی میں آپ کا ممنون ہوں گاجو اگر آپ تبادلہ یہاں سے ایران کر دیں۔
مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتیں عمران خان کی جان کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہیں۔ سیاست کے پیچھے پڑ جائیں تو الگ بات ہے لیکن جان لینے کی باتیں کرنا کیا یہ سیاست میں مناسب رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی مخالفت کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے: ہم نے یہ دیکھا ہے کہ کونسلر بھی اپنی جیت کے لیے یا اپنی سیٹ کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ مسلم لیگ ن تو پورے پاکستان کی حکمران ہے۔ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ ان کے کتنے زیادہ وزیر ہیں ،وزیراعظم ہے اورڈپٹی وزیراعظم ہے۔سارے کے سارے ادارے ان کے ماتحت ہیں اتنے زیادہ اختیارات کون چھوڑ سکتا ہے اور عمران خان ان کے لیے نائٹ میئر بن چکا ہے، خوف کی علامت بن چکا ہے۔ عمران خان کو اگرجیل سے چھوڑتے ہیں تو عمران خان ان کی جگہ لے سکتا ہیں۔ تو اس لیے مسلم لیگ ن کے لیے ناقابل برداشت ہیں اور پیپلزپارٹی کو پتا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں آ جاتے ہیں توصدر آصف علی زرداری کی صدارت کا کیا بنے گا ؟ان کے لگائے گئے یا لگوائے گئے گورنرز ہیں ان کا کیا بنے گا؟ صوبہ سندھ میں ان کی اپنی حکومت ہے بلاشرکت غیرے تو اس کا کیا بنے گا؟اور سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو جو چیئرمین لگوایا ہوا ہے اس کا کیا بنے گا؟ یہ ساری چیزیں دیکھتے ہوئے ان کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان رہیں تو جیل میں ہی رہیں۔
لہٰذا ان تمام واقعات سے ثابت ہوا کہ یہ مفادات کی جنگ ہے جس کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت تمام مقتدر اداروں کے کچھ طاقتور لوگ ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں ،آگے کھائی اور پیچھے کنواں ہے۔تو ان حالات میں کپتان کا ان شکنجوں سے بچ کر نکل آنا یقینا ایک معجزہ ہوگا۔مگر کپتان کے کھلاڑیوں کو قوی یقین ہے کہ میچ کے آخری اوور کی آخری بال پر بھی کپتان کھیل کا نتیجہ اُلٹا سکتا ہے!

ای پیپر دی نیشن