گوشہ تصوف… ڈاکٹر ظہیر عباس قادری الرفاعی
drzaheerabbas1984@gmail.com
ابو الاثرحفیظ جالندھری یاد آگئے،قومی ترانت کے خالق کا یہ شعر آب زر سے لکھنے کے مترادف ہے، کریم اللہ انکی قبر ٹھنڈی کرے آمین
ماں وہ ہستی ہے جسے لفظ و بیاں کہ نہ سکیں
ماں وہ ہستی ہے جو ہر اوج پہ حاکم ٹہری
لوح محفوظ کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوا
ماں کی تعظیم رسولوں پہ لازم ٹہری
میں نے جنت تو نہیں مگر ماں دیکھی ہے !!ماں''شفقت،خلوص،محبت قربانی اور ٹھنڈک کا دوسرا نام ہے''ماں'' دنیا کا سب سے پیارا لفظ ہے، ماں وہ ہستی ہے ،جس کی گود میں سر رکھ کر سکون کا احساس ہوتا ہے ''ماں ''جس کا سایہ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاو¿ں کی مانند ہے۔ نبیوں کے بعد دنیا میں اس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی پیدا ہی نہیں ہوئی۔'' ماں'' جو دکھ پر دکھ اٹھا کر نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے۔ اس کی پیدائش کے لیئے جان پر کھیل جاتی ہے۔ دو سال تک اس کو دودھ پلاتی ہے۔خود تو بھوکی رہ سکتی ہے لیکن اولاد کو کبھی بھوکا نہیں سونے دیتی۔ کچھ بھی ہو جائے اپنی اولاد کے لیے اس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی۔ کبھی اسے اولاد سے اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی،ہر دن اس کی محبت بڑھتی تو چلی جاتی ہیمگر کم نہیں ہوتی۔
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا گیا ہے اور اللہ کریم نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔ اب جس کا دل چاہے'' جنت'' حاصل کر سکتا ہے۔ ماں کی عزت، کر کے، اس کا احترام کر کے، اس کی خدمت کر کے، اس سے محبت کر کے ، اس کے فرمانبردار بن کے اللہ اور نبی کو خوش کر کے خوش قسمتی کا سکندر بن سکتا ہے۔"ماں'' اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔عقل و شعور کی پہلی درسگاہ،خلوص ومحبت کا پیکر ہے۔''ماں“جنت کا وہ پھول ہے جس کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔''ماں'' کی قدر و قیمت ان سے پوچھیں جن کی مائیں اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہیں۔سمجھو کہ صرف جسم ہے اور جاں نہیں رہی۔ وہ شخص جو کہ زندہ ہے اور ماں نہیں رہی!! پیارے بھائی ساجد محمود قادری اونر قادری ساو¿نڈ اسلام آباد کی ماں عظیم شخصیت تھیں وہ عاشق رسول اہل تھیں اولیاءکرام سے بے پناہ محبت کرنے والی خاتون تھیں۔بطور خاص سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی سے والہانہ محبت کرتی تھیں اسی نسبت ان کے بیٹے نے اپنا کروبار پیران پیر سے منسب کردیا۔ ایوان صدر پ سے عام محلے کی محافل نعت و میلاد کے پروگرامز میںقادری ساو¿نڈ منفتد پہچان رکھتا ہے اور یہ اعجاز ماں کی دعاو¿ں اوروالد گرامی مبین خان صاحب کی محنتوں و رہنمائی کا ثمر ہے۔ماں جی ہمیں بیٹا کہتی تھیں ہم نے ان میں ہمیشہ کمال عاجزی دیکھی ہے۔معاشرے کی عورتوں میں یہ رواج عام ہے کہ جب ان کے پاس شہرت اور دولت آ جائے تو وہ دوسروں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتی ہیں مگر پیاری ماں جی اور ان کی اولاد کو میں نے غرور تکبر و خود پسندی سے بہت دور پایا ہے وہ ہمیشہ دوسروں کو عزت دیتی تھیں اور اپنے پورے خاندان اور تعلق والوں کی ڈھارس اور سہارا تھیں ،وہ اپنے سے مالی طور پر کمزور بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے خود رابطہ رکھتی تھیں اور کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ یہ خاندان نامور ہو گیا ہے اور اب ہمیں بھول گیا ہے۔ماشاء اللہ …سماج میں یہ بات بھی عام ہے کہ جس خاندان کے پاس دولت و شہرت آ جائے تو وہ اپنے حاسدین سے بدلے لینا شروع کر دیتے ہیں اور یہ بدلے کی آگ عورتوں میں بہت ذیادہ ہے جو کہ ہمارے معاشرے و خاندانی نظام کی بربادی کی جڑ ہے مگر ماں جی ہمیشہ معاف کرنے والی اور اپنے حاسدین کی بھی خیرخواہی کرنے والی تھیں۔ہم نے ان کو بدعا دیتے نہیں دیکھا اور نا ہی کسی کا برا چاہتے ہوئے دیکھا ہے۔ان کی زبان پر ہمیشہ ایک جملہ ہوتا تھا کہ اللہ کریم ہمیں پریشان کرنے والوں کا بھلا کرے اور ان کو ہدایت دے۔جبکہ وہ جانتی ہوتی تھیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ آج کے انسان میں یہ خوبیاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں لہٰذا میں یہ سب اس لئے لکھ رہے ہیں تاکہ ہماری مائیںاور بیٹیاں سیکھیں اور عمل کریں …ماں جی عرصے سے بیمار تھیں اور مسلسل تکلیف پر بھی بے حد صبر کرنے والی کثرت درود شریف اور کثرت توبہ کرنے والی تھیں۔ان کی سخاوت ان کے خاندان اور تمام جاننے والوں میں مشہور ہے۔ زندگی میں کسی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم ان کے گھر گئے ہیں اور مہمان نوازی نہ کی ہو حتی کہ ان کو یاد ہوتا تھا کہ ہمیں کیا پسند ہے اور کون سی چیز ڈاکٹر نے منع کی ہوئی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ چاہتی تھیں کہ مہمان اپنی مرضی کا کھانا کھائے۔عالمی شہرت یافتہ نعت خواں الحان محمد اویس رضا قادری، صاحبزادہ تسلیم صابری نور سلطان صدیقی صاحب ،قاری شاہد قادری، شہباز قمر فریدی غلام مصطفے قادری و دیگر حضرات ان کے گھر کا کھانا بہت شوق سے کھاتے تھے۔ ماں جی کے ہاتھ سے بنے پراٹھے تو مہمانوں کی موج کروا دیتے تھے۔ اسی طرح آل رسول و اصحاب رسول و اولیاءکرام کے دن منانا ان کے معمولات کا جزو تھا اور ان کی اولاد بھی تربیت یافتہ حسن اخلاق کی پیکر اور باادب ہے۔ہمیں ان کا روحانی علاج کرنے کا بھی شرف حاصل رہا کیونکہ وہ ہم پر ذیادہ اعتماد کرتی تھیں اور اللہ و رسول کا فضل ہے کہ ہمیں وہ اعتماد نبھانا نصیب ہوا اور اسی وجہ سے اللہ کریم نے ان کو کافی مسائل سے چھٹکارا نصیب فرمایا۔ان کی بیماری کے ایام میں بڑے بیٹے ساجد قادری نے ان کی خوب خدمت کی۔ ہمیں ساجد بھائی کی قسمت پر رشک آتا تھا ۔انسان کی جتنی زندگی ہو اس نے اتنا ہی جینا ہوتا ہے مگر اللہ کریم ساجد صاحب جیسا بیٹا ہر ماں کو نصیب کرے۔ہم غم کی ان گھڑیوں میں خاندان کے ساتھ برابر شریک ہیںاور ہمیشہ دعا گو رہیں گے۔ محترم الحاج محمد نواز گوندل بھی اس خاندان کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں وہ بھی اس غم میں شریک ہوں گے۔ہم پیارے ساجد قادری بھائی ،افتخار احمد، ملک مظہر اعوان و فیملی ممبران سے تعزیت کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ کریم ماں جی کے درجات بلند فرمائے ، تمام خاندان اوا اہل محبت کو صبرو جمیل کے گلاب عطا فرمائے آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے۔
( صاحب مضمون چئیرمین صوفی فکر انٹرنیشنل ، سجادہ نشین مرکز قادریہ پاکستان/برطانیہ ہیں)