گردن چمک دار تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پر وقا رہوتے۔
جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور با رونق ہو تا۔ شیریں گفتار۔ گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔قد درمیانہ تھا۔ نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں۔
آ پ دو شاخو ں کے درمیان ایک شاخ کی مانندتھے جو سب سے سر سبز و شاداب اور قدآور ہو۔ ان کے ایسے ساتھی جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراًً اس کی تعمیل کرتے۔ اگر آپ انہیں حکم دیتے تو فوراًبجا لاتے۔ سب کے مخدوم۔ سب کے محترم۔ نہ وہ ترش رو تھے نہ ان کے فرمان کی مخالفت کی جاتی تھی۔
حضور نبی کریمﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے عقیدت و محبت مصطفے سے جگمگاتی ہوئی آنکھوں سے ستارے پھوٹ رہے ہوں۔ لفطو ں نے رنگ و خوشبو کا لبادہ اوڑھ لیا ہو۔ جلوہ حضو ر نے علم و عشق کے آفتاب کی کرنیں لٹا دی ہوں ۔ محققین نے حضرت ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کردہ حلیہ مبارک کو حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی نعت قرار دیا۔
حضور نبی کریم ﷺ کچھ دیر ٹھہر کر آپ کے گھر سے تشریف لے گئے لیکن آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لفظوں کی کہکشاں بکھیر دی۔
تری خوش بختیاں اے ام معبد کوئی کیا جانے
ترے الفاظ میں گم ہیں زمانے بھر کے فرزانے
جب حضرت ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور نبی کریم ﷺکا حلیہ مبارک بیان کیا تو ان کے شوہر کہنے لگے یہ تو وہی صاحب قریش ہیں جس کا زمانہ دیوانہ ہے۔ میں ضرور جا کر ان سے ملوں گا۔
جب حضور نبی کریمﷺ مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں کے درو دیوار خوشی سے جھوم رہے تھے ہر طرف توحید و رسالت کے اجالے اپنا نوربکھیر رہے تھے۔ حضرت ام معبد بھی اپنے خاوند کے ساتھ مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہوئیں اور دونوں دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اور یہ حضرت ام معبدرضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سب سے بڑ ا اعزاز ہے کہ انہوں نے حضور کاحلیہ مبارک بیان کیا۔
حضرت ام معبد فرماتی ہیں وہ با برکت بکری جس کے تھنوں سے حضور نبی کریم ﷺ نے دودھ دوہا تھا وہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت تک ہمارے پاس رہی لیکن اس کے دودھ میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی۔