عجب ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ ترستی نگاہوں سے بنگلہ دیش کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس ملک کے عوام اور اس ملک کی قیادت نے قیام ِ پاکستان کی تحریک چلائی ، مولوی فضل حق نے مینار ِ پاکستان کی گراﺅنڈ میں 23مارچ1940ءکے تاریخی جلسہءعام میں قرارداد پاکستان منظور کی، وہ بھی بنگالی لیڈر تھے ، بدقسمتی سے ہم انصاف اور جمہوریت کی بنیاد پر ایسا متوازن نظام وضع نہ کرسکے جس کی وجہ سے مشرقی خطے کے عوام بد ظن ہوکر ہمارے ساتھ مستقل طور پر نہ چل سکے، ہم نے ساری تعمیر و ترقی کا زور مغربی پاکستان میں لگایا ، مشرقی پاکستان کے خطے کے عوام کو شکایت تھی کہ ہم ان کے سنہری ریشے کی کمائی کو لوٹ کر عیاشی کی نذر کررہے ہیں۔ بہرحال 1970ئ، 71ءمیں شورش برپا ہوئی تو بھارت نے کھل کر انتشار پسندوں کی پیٹھ ٹھونکی ، اور انہیں کولکتہ لے جاکر مکتی باہنی کی تشکیل و تربیت کی۔ بنگلہ دیش کا ایک ماڈل یہ بھی سامنے آیا کہ عوام اور بیرونی قوتوں کی حمایت سے کامیاب بغاوت کی جاسکتی ہے۔
بنگلہ دیش ماڈل کا ایک اور پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کو ان کے گھر کی سیڑھیوں پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اس سانحے سے شاید ہم نے یہ سبق سیکھا کہ اپنے قومی محسنوں کی جانوں سے کس طرح کھیلا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش ماڈل کا اصل مطلب یہ لیا گیا کہ بنگالی فوج یا تو ڈھاکہ کا اقتدار سنبھال لے.... یا پھر پس پردہ رہ کر ٹیکنوکریٹس کے ذریعے ملک کو چلانے کی کوشش کرے....اور ان ٹیکنوکریٹس کی جڑیں عوام کے اندر پیوستہ نہیں تھیں ، وہ ہمیشہ بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کوشاں رہتے۔ بنگلہ دیش ماڈل کا ایک چہرہ یہ ہے کہ مرحوم سیاسی قائدین کی بیواﺅں نے باری باری حکومت کی۔ بیگم خالدہ ضیاءاور بیگم حسینہ واجد سوکنوں کی طرح باہم لڑنے بھڑنے میں مصروف رہیں۔ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں سیاسی اور حکومتی استحکام قدم نہ جماسکا۔ ہم لوگوں نے خالدہ ضیاءکو پاکستان کا ہمدرد اور حمایتی سمجھا ، مگر یہ ہماری محض خوش فہمی نکلی۔
بنگلہ دیش ماڈل نے ایک بھیانک رخ یہ اختیار کیا کہ سیاسی مخالفین البدر ، الشمس اور جماعت اسلامی کے قائدین ، کارکنوں اور پاکستان کے نام لیواﺅں کا حشر نشر کردیا۔ سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان لوگوں کے گھربار اور کھیت کھلیان تک جلادئیے گئے ، انہیں یا تو جان سے مار دیا گیا ، یا نامعلوم مقامات پر عقوبت خانوں میں بند رکھا گیا۔ پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا گیا، جن میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے قائدین کی اکثریت تھی۔ انہی لوگوں نے بھارتی فوج کی بیرونی مداخلت کا مردانہ وار مقابلہ کیاتھا۔
پچھلے چند برسوں میں بنگلہ دیش ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے منہ سے رال ٹپکتی رہی ، ہم نے بنگلہ دیش کی صنعتی ترقی کے گن گائے ، اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات کے ڈھول بجائے، بنگلہ دیش کی بظاہر تیزی سے بڑھتی ہوئی آئی ٹی برآمدات سے ہماری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ ہماری ٹیکسٹائل ملوں کو اس وقت تالے لگ رہے تھے ، اس میں کام کرنے والے مزدور بے روزگاری کا شکار ہورہے تھے،ہمارے ٹیکسٹائل مالکان نے بنگلہ دیش کو اپنی سرمایہ کاری کا مرکز بنالیا۔بالآخر یہ سب کچھ سراب ثابت ہوا۔ آج بنگلہ دیش کے نوجوان بھوک ، بے روزگاری اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آمد ، بجنگ آمد کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ملک میں جاری غیر منصفانہ اور کوٹہ سسٹم کے استحصالی نظام سے نوجوانوں کے ذہن کے آتش فشاں پھٹ پڑے اور گذشتہ چند ماہ سے انہوں نے خلیج بنگال کی بپھری ہوئی لہروں کی شکل اختیار کرلی۔ احتجاجی نوجوانوں نے جلاﺅ گھیراﺅ کا راستہ اختیار کرلیا اور ملکی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ نہ سڑکوں پر ٹریفک نظر آتی اور ملکی اور غیر ملکی جہاز ڈھاکہ ائرپورٹ کا رخ کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے ، گلیاں اور بازار سنسان ہوگئے ، دفاتر ویران ہوگئے ، شیخ حسینہ واجد کی حکومتی رٹ کو عوامی ہجوم نے بھک سے اڑا کر رکھ دیا۔
دو، تین مہینوں کی شورش کے دوران پانچ سو مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بناکر شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے کوشش کی کہ وہ ان کی لاشوں پہ اپنا تخت سجائے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔۔۔!
ایک وقت آیا کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے اعلان کردیا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، ان کے مقابل نہیں کھڑے ہوں گے۔ حسینہ واجد کی یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئیں۔ انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور بھارت میں جاکر پناہ لے لی۔ ابھی تک دنیا کا کوئی اور ملک اس قاتل اور جنونی خاتون کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ بنگلہ آرمی چیف فوج کے سابق سربراہ کی بیٹی سے بیاہے ہوئے ہیں اور یہ صاحب حسینہ واجد کے انکل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ خاندانی رشتے داری نے حسینہ واجد کی قسمت کی یاوری کی۔
اب بظاہر حکومتی فیصلے بپھرے ہوئے بنگالی نوجوان کررہے ہیں ، ان کے مطالبے اور مشوروں پر عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔ لیکن ابھی مستقل سیاسی اور حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کا کام باقی ہے۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ بنگلہ دیش کے حالات آگے چل کر کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں۔ بنگلہ دیش میں آج کل جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ مستقبل کی صورت گری کا باعث بن سکے۔ ڈھاکہ کی صورت ِ حال سخت دگرگوں ہے ، آرمی چیف ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مگر کون جانتا ہے کہ یہ ٹھنڈا مزاج ، گرم مزاجی کی کب شکل اختیار کرلے !
عوام کی طاقت وقتی طور پر تو اپنا رنگ جماسکتی ہے ، لیکن بنگلہ دیش میں اصل طاقت فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آرمی چیف کیا کچھ نہ کرگذرے۔وہ عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کو چلتا کرسکتے ہیں ، سیاسی جماعتوں کے عزائم کو پاش پاش کرسکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کا کبھی ثمر نہیں مل سکا۔ انقلابِ فرانس انسانیت کے المئے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دیوار ِ برلن ٹوٹی ، یہ فیصلہ عوام کا نہیں تھا کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کو متحد کردیا جائے ، بلکہ اس کے فیصلے عالمی طاقت کے مراکز میں ہوئے۔ ورنہ مشرقی یورپ کے درجنوں ممالک کے عوام کی کسی نے ایک نہ سنی اور ان کے حصے بخرے کردیئے گئے۔ سوویت یونین شکست و ریخت کا شکار ہوئی، اس کے اندر سے درجنوں ممالک نے جنم لیا۔ یہ ممالک بظاہر تو ماسکو کی کیمونسٹ حکومت سے آزاد ہوگئے ، مگر ان نوآزاد ریاستوں کے عوام ہمیشہ فاشزم کی حرکتوں اور کارروائیوں کا نشانہ بنے رہے۔
اس پس منظر میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بنگلہ دیش کے عوام اور طلبہ کی حقیقی امنگیں ، آرزوئیں کبھی پوری ہوسکیں گی یا نہیں۔ بنگلہ دیش کے موجودہ آرمی چیف کے بارے میں ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کس قدر موثر ثابت ہوسکتے ہیں ؟ ان شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگلا آرمی چیف ملک میں آنے والی اس عوامی تبدیلی کی حقیقی قوتوں کا نمائندے نہیں ہے۔ اس کے لئے فوجی جنتا کو اپنے ساتھ رکھنا مشکل ہے۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ بنگلہ دیش میں موجودہ صورتحال تادیر برقرار نہیں رکھ سکتی ، عوامی جذبات کو سمجھنے والا کوئی نیا سینئر جنرل موجودہ آرمی چیف کو ہٹاکر اپنا راج قائم کرلے گا۔ عوام اور ان کے قائدین ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔