ایک کالم میرے ارشدوں کے نام

ایک وزیر باتدبیر جن کی عقل و دانش کا لوہا ان کی پوری پارٹی بلاچون و چراں تسلیم کرتی ہے بلکہ اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹتی ہے۔ ان کے حالیہ بیان نے، جو انہوں نے ہم سب کے غیر متنازعہ قومی ہیرو ارشد ندیم کی آمد کے موقع پر دیا۔ توجہ مبذول کر لی ہے۔ انہوں نے بالکل درست فرمایا کہ کامیابی وسائل کی مرہون منت نہیں ہوتی۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ کتنے ہی دانشوروں، فلاسفروں، سائنسدانوں ، ماہرین معیشت، کھلاڑیوں اور سیاسی رہنماو¿ں نے انتہائی نامساعد حالات میں آنکھ کھولی اور اپنی محنت اور جہد مسلسل سے دنیا کو ”فتح“ کر لیا۔ 
مجھے سکواش کے مایہ ناز کھلاڑی قمر زمان کا ایک انٹرویو اب تک یاد ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس سکواش کی گیند خریدنے کے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے چنانچہ ان کی والدہ پھٹے ہوئے گیند سلائی کرکے دیدیا کرتی تھیں۔ وہ ان سلائی شدہ گیندوں کو ایک خاص انداز میں شارٹ لگایا کرتے تھے کہ پریکٹس بھی ہو جائے اور پھٹے ہوئے گیندوں کے حوالے سے ”خیال خاطر احباب بھی رہے“۔ بعد میں ان کی یہی احتیاطی شارٹ ان کا سب سے مشہور اور منفرد سٹروک قرار پائی اور اس کے سہارے انہوں نے سکواش کی دنیا کو فتح کر لیا۔
 غربت میں مبتلا مائیکل فیراڈے، روسو، کارل مارکس کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں لیکن اس وقت تو ان سب سے مکرم ہمارے پاس ہمارے اپنے قومی ہیرو بلکہ ”سکہ رائج الوقت“ ارشد ندیم کی مثال موجود ہے جو گھی کے ڈبوں میں کنکریٹ بھر کر ورزش کیا کرتا تھا۔ گھر کے کچے مگر دھن کے پکے ارشد ندیم سے ایک بار ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ ”حیرت ہے اتنے قد کاٹھ کے ساتھ، آپ اپنے مٹی سے چنے ہوئے گھر کے چھوٹے سے کمرے میں گھس کیسے جاتے ہیں اور گھسنے کے بعد باہر کیسے نکل پاتے ہیں۔ عاجزی کے پہاڑ اس عظیم ہیرو نے یقیناً مسکراتے ہوئے یہی جواب دیا ہو گا کہ ”یہ بھی اللہ کا کرم ہے“۔ 
بالکل یہ اللہ کا کرم ہے اور ہمارے جیسے ٹیلنٹ سے لاپروا ملک میں تو یہ بالکل ہی اللہ کا کرم ہے کہ کسی نہ کسی کونے میں، چھوٹے سے گاو¿ں میں ایک کچے سے معمولی گھر میں ارشد ندیم جیسے بڑے آدمی پیدا ہو جاتے ہیں جن کی بڑائی کا کریڈٹ لینے کئی لوگ دھکم پیل کرتے سامنے آ جاتے ہیں اور جب کروڑوں روپے بجٹ والی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کے پہلے ہی راو¿نڈ سے باہر ہوکر چھپتے چھپاتے وطن میں وارد ہوتی ہے تو یہی کریڈٹ لینے والے اس طرح غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ....
کروڑوں روپے معاوضہ اور مراعات لینے والوں کی صورتحال دیکھ کر وہ شخص یاد آ گیا جو اپنے دوست کے جنازے میں پہنچا تو دوست کی بیوی (جو پاکستان میں ٹیلنٹ ہنٹ کے نام پر قائم سرکاری اداروں کی طرح بیوہ ہو چکی تھی) بین ڈالتے ہوئے بولی ” تم تو چلے گئے اب تمہارے پلازے کون سنبھالے گا“؟
اس پر یہ صاحب جنہیں اچھی چیزوں کا کریڈٹ لینے کا بہت شوق تھا۔ یکدم بول اٹھے ”بھئی سنبھال لیں گے“ دوست کی بیوی نے جب روتے روتے مزید جائیدادوں اور بنک بیلنس کا ذکر کیا تو بھی فرمانے لگے کہ ”کوئی مسئلہ نہیں دیکھ بھال کر لیں گے“ آخر میں دوست کی بیوی نے جب کروڑوں روپے کے بنک کے قرض کا ذکر کیا کہ وہ کون ادا کرے گا؟ تو یہ صاحب تلملا کر بولے ”جناب باقی لوگ بھی حامی بھریں کہ ساری ذمہ داری مجھے ہی اٹھانی ہے“۔
ارشد ندیم نے بالکل درست کہا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے ماں کی دعائیں اور کوچ کی محنت ہے۔ بالکل ماں کی دعا تو پتھر کے ب±ت میں جان ڈال دیتی ہے یہ تو پھر گولڈ میڈل ہے۔دعاو¿ں، جذبہ جنون، محنت، تعاون اور اچھی کوچنگ کے باعث دنیا نے کئی بار ایسے قد آور انسانوں کو اس طرح نمودار ہوتے دیکھا ہے کہ بقول شاعر
”آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں “ 
 مٹی کے گھروندوں کے پالے۔ ارشد جیسے لوگ جب اپنے پورے قد سے کھڑے ہوتے ہیں تو وقت کے بڑے بڑے قد آور لوگ بھی بونے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایسے بونے جو کسی وقت بھی اپنی ہی کہی بڑی بڑی باتوں کے بوجھ تلے دب جانے کی پوری ”صلاحیت“ رکھتے ہیں۔
 ارشد، اس کے خاندان اور کوچ کے علاوہ ان کا گاوں بھی بڑے لوگوں کا گاو¿ں ہے جنہوں نے بہت تعاون کیا، چندہ جمع کرکے اس وقت سات لاکھ روپے کا ”جیولین“ دیا جب اس کے ناز ونعم میں پلے حریف کو اس کی حکومت 100 سے زائد ”جیولین“ دے چکی تھی اور ہر طرح صدقے واری جا رہی تھی۔ ہمارے ارباب اختیار اور کھیلوں کے سرپرست متعدد ادارے یقیناً اس وقت لمبی تان کو سو نہیں رہے ہوں گے بلکہ کئی قدم دور ہٹ کر اپنی طرف نظر کرم کے منتظر ہزاروں، ٹیلنٹڈ نوجوانوں کو یہ سبق دینے میں مصروف ہونگے کہ کامیابی وسائل کی مرہون منت نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے گھر والوں، رشتہ داروں، گاو¿ں والوں یا محلہ داروں سے مدد مانگیں۔ اینٹ کنستر سے پریکٹس کے آلات تیار کریں، پھٹی ہوئی گیندوں کی سلائی کرکے بڑے آدمی بنیں اور جب بڑے آدمی بن جائیں تو بے شک چلے آئیں تاکہ ان کے ساتھ تصویریں بناکر بونوں کا قد بڑا کیا جا سکے۔ 
کچے گھروں اور چھوٹے کمروں سے بڑے آدمی یونہی برآمد نہیں ہو جاتے۔ ان کے اپنوں کو مصائب کے پہاڑ عبور کرنا پڑتے ہیں۔میرتقی میر کو بھی کہنا پڑا تھا کہ 
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے 
دردوغم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
پھر کہیں جاکر چمن میں 40 برس بعد وہ دیدہ ور پیدا ہوتا ہے جو گولڈ میڈل حاصل کر سکے۔ بہرحال یہ قول اچھا ہے کہ کامیابی وسائل کی مرہون منت نہیں ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یہ مشورہ ملکی کرتا دھرتاو¿ں اور سرکاری اداروں کو بھی دیدیا جائے تاکہ وہ بھی قوم کے وسائل کو اپنا جان کر کفایت شعاری سے برتیں۔ عوام کی خون پسینے کی کمائی (بعض اوقات بوڑھے ماں باپ کی دوا‘ بچوں کی تعلیم اور بیٹیوں کے جہیز کیلئے رکھے پیسوں اور قرض لیکر محفوظ رکھی ہوئی رقم ) سے ادا ہونے والے ٹیکسوں اور بلز کے پیسوں کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ مفت، بجلی،پانی، گیس، جہازی سائز گاڑیوں، محلات اور لمبے لمبے پروٹوکول والے قافلوں سے اجتناب کریں تو بہت کچھ سدھارا جا سکتا ہے، کشکول توڑا جا سکتا ہے اور ملک کو بہتر انداز میں تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ”عوام الستیاناس“ (بقول مشتاق احمد یوسفی وہ عوام جس کا ستیا ناس کر دیا گیا ہو) کو بھی سکھ کا سانس دیا جا سکتا ہے۔
سرکاری اداروں سے یہی پوچھ لیا جائے کہ تعلیم اور کھیل کے میدانوں میں کتنے نوجوانوں کی سرپرستی کرکے انہیں قوم کا فخر بنایا ہے یا پھر فنڈز کے من مانے استعمال سے اپنی محنت سے مشّاق ہو جانے والے ارشد کے ساتھ باقی لوگوں کو ” ج±ماں جنج نال“ ہی بنا سکے ہیں۔ اور کیا ٹیلنٹ کو روند کر سفارشی کلچر کو ہی فروغ دینا ہے؟۔ 
 کامیابی وسائل کی مرہون منت نہیں ہوتی والا مشورہ صرف عوام کیلئے ہی ہے یا یہ مشورہ کابینہ اور سیاسی اجلاسوں میں بھی سنجیدگی سے دیا گیا ہے!۔ ورنہ تو معاملہ ارسطو والا ہی نکلے گا جو اپنے شاگرد سکندر کو خواتین سے دور رہنے کا مشورہ دیکر خود ایک حسین خاتون کی فرمائش پر گھوڑا بن کر اسے اپنے اوپر سواری کراتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ 
میرے تمام ارشدو پھولو پھلو اور اپنی محنت اور ہمت سے آگے بڑھتے رہو....

ای پیپر دی نیشن