ماننا تو پڑے گا

حکومت سازی میں آپ اسے چاہے ناکام قرار دیں مگر ذہن سازی میں اس کا مقابل نہیں۔ یہ تو ماننا پڑے گا۔ جب کوئی ایک لمحے میں دو اور دو کو چھ کہے اور اگلے لمحے میں دو اور دو کو آٹھ کہہ ڈالے اور دونوں باتیں لوگ مان بھی لیں تو اس کے حساب کتاب کو نہ سہی اس کی اس منوا لینے کی صلاحیت کو ماننا تو پڑے گا۔ اس سے کبھی سیاست میں آنے کا پوچھا جاتا تھا تو وہ کہہ دیتا تھا کہ وہ کبھی سیاست میں نہیں آئے گا وہ تو سیاست کا میٹریل ہی نہیں لیکن پھر وہ سیاست میں بھی آیا اور خود کو ہی اصل سیاسی میٹریل قرار دیا اور سب نے مان لیا تو ماننا تو پڑے گا۔ اس نے کہا کہ وہ سیاست میں آیا ہے اسٹیس کو توڑنے کیلئے۔ روایتی سیاست اور روایتی سیاستدانوں سے جان چھڑانے کے لیئے۔ سب نے مان لیا اور پھر وہ اسٹیٹس کو کا حصہ بنا، روایتی اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے سیاستدانوں کو نہ صرف ساتھ ملایا بلکہ پارٹی میں سب سے آگے رکھا۔ لوگوں کے سامنے کئی روایتی بلکہ مسترد شدہ سیاستدانوں کو قابل قبول بنا کر پیش کیا اور سب نے انہیں قبول بھی کرلیا۔ ماننا تو پڑے گا۔ اس نے جن سیاستدانوں پر بڑے بڑے الزام لگائے چور ڈاکو کہا پھر ہاتھ ملا کر انہیں سر آنکھوں پر بٹھا دیا تو سب بھول گئے کہ یہ کبھی چور اور ڈاکو ہوا کرتے تھے۔ ماننا تو پڑے گا۔ اس نے ہر مخالف سیاستدان کو کرپٹ قرار دیا۔ ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ان کے اپنے بھی شک کرنے لگے کہ یہ واقعی کرپٹ تو نہیں؟ اقتدار ملنے پر انہیں جیلوں میں ڈلوایا ان کیخلاف کیسز عدالتوں نے ختم کردئیے لیکن ان پر سے کرپٹ ہونے کا داغ اس نے دھلنے نہیں دیا۔ دوسری جانب اس کو بھی عدالتوں سے سزائیں ملیں اس کے خلاف اس کے مخالفین سے زیادہ سنگین کیسز تھے وہ الزامات جنہیں اس نے تسلیم کیا ملکی خفیہ دستاویز گم ہوگئیں۔ برطانیہ میں پکڑی جانیوالی رقم ایک بڑے بزنس میں کو مل گئی۔ وہ یہ سب مان رہا تھا عدالتوں نے سزائیں سنائیں لیکن اس کے چاہنے والے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے اور وہ کبھی کوئی جرم کر سکتا ہے۔ ماننا تو پڑے گا۔ اس نے اپنی حکومت گرنے کا الزام امریکہ پر لگایا سب نے مانا پھر اس نے اسٹیبلشمنٹ پر تھونپ دیا سب نے مانا۔ پھر اس نے کہہ دیا یہ دونوں نہیں تھے، سب نے یہ بھی مان لیا۔وہ فوجی سربراہ کے سامنے تعریفوں کے پل باندھ دیتا اور سیاسی مخالفین کو بوٹ پالشیا کہتا اور سب مان لیتے۔ وہ لوگوں کو سمجھاتا کہ مہنگائی ہو تو سمجھو حکمران چور ہے۔ اور جب اس کے دور میں مہنگائی ہوتی تو ایسی تاویلیں دیتا کہ لوگ پانچ سو روپے لیٹر پٹرول کو بھی قابل قبول قرار دیتے۔ مخالفین پر قرض لینے کا الزام لگایا اور خود ملکی تاریخ کے سب زیادہ قرض لئے ، قرض مانگنے کو عوام کی تو ہین کہا پھر قرض ملنے کو بڑی خوشخبری قرار دیا ،اس نے فوج کے افسران کے نام لے لے کر الزامات لگائے۔ اپنے کھلاڑیوں کو ان کے خلاف باہر نکلنے کی ہدایت کی اور جب نو مئی ہوگیا تو وہ معصوم بن گیا اور اس کے کہنے پر سب کرنے والوں نے بھی مان لیا کہ وہ معصوم ہے۔ اس نے ایجینسیوں کی جانب سے فون ٹیپ کرنے کے حق میں دلائل دیئے اور پھر اسے جرم قرار دیا۔ سب نے دونوں باتیں مان لیں۔ اپنی کسی مبینہ ویڈیو کے سامنے آنے کے خدشے کے پیش نظر اس نے لوگوں کو سمجھایا کہ ڈیپ فیک ایک ٹیکنالوجی کا نام ہے جس کے ذریعے کسی کی بھی جعلی ویڈیوز بنائی جاسکتی ہیں۔ پھر اپنے کچھ ساتھیوں کی صاف جعلی نظر آنے والی ویڈیوز کو اصل بنا کر ہیش کیا، ہمدردیاں سمیٹیں، یہاں بھی اس نے دونوں باتوں کو منوایا۔ اس نے پورے پاکستان میں سے ایک سابق بیوروکریٹ کو چیف الیکشن کمشنر بنوایا اور پھر اسے برا بھلا کہا الزمات لگائے، اس نے ملک کے آرمی چیف کو سب سے بڑا جمہوری قرار دیا اور پھر اس پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگا دیا۔ وہ ہمیشہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانے کا کریڈٹ لیتا رہا پھر اچانک جب اس کی حکومت گرنے لگی تو کہہ دیا فوج نیوٹرل تو نہیں رہ سکتی نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ اور پھر ایک بار خود ہی کہہ دیا کہ فوج کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔ تو جب وہ دن کو رات اور رات کو دن بنا کر ہیش کرکے منوا بھی لیتا ہے تو ماننا تو پڑے گا۔ اب تو اس کے چاہنے والوں کو بھی اس پر اتنا اعتقاد ہے کہ اس کیخلاف کچھ بھی ہوجائے وہ یقین سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کپتان کے ایک بیان کی مار ہے۔ یہی اندھا اعتقاد دراصل اس کی طاقت ہے اور وہ یہ جانتا ہے،اسی کے بل بوتے پر تو اس نے وہ مشہور و معروف دھمکی لگائی تھی “میں اور خطرناک ہوجاوں گا “ لیکن آخر یہ سب کیسے اور کیوں ہوجاتا ہے۔ لوگ کیوں ایسی متضاد باتوں کو مان لیتے ہیں، ایسے تضادات پر یقین کرلیتے ہیں، اس کی ہر بات کو سچ سمجھ لیتے ہیں، سوالات نہیں اٹھاتے۔ اس کے پیچھے بھی کچھ وجوہات اور دلچسپ حقائق ہیں جن پر کسی آئندہ تحریر میں بات کریں گے۔ تب تک آپ بھی سوچیئے گا کہ کیا ایسا ہے اور ہےتو آپ کے خیال میں کیوں؟
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...