ملک دشمن ایجنڈے پر پی ٹی آئی کے بھارت سے روابط کے ثبوت

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما رﺅف حسن کے بھارتی صحافی کرن تھاپر کے ساتھ اشتعال انگیز اور خوفناک پیغامات پر مبنی روابط سے پی ٹی آئی کا ملک دشمنی پر مبنی ایجنڈا ایک بار پھر بے نقاب ہو چکا ہے۔ ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند فارن فنڈڈ جماعت نے پہلے سائفر کے ذریعے ملک کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچایا اور اب ملک کی سالمیت اور بقا کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے غیر ملکی آقاﺅں کا سہارا لے رہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ مذکورہ بھارتی صحافی پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ رﺅف حسن نے بھارتی صحافی کے ساتھ تحریک انصاف کی سوچ کی ترجمانی کی جو پاکستان کی سالمیت اور بقا کے خلاف سازشوں کو فروغ دے رہے ہیں، اب سمجھ آ رہی ہے کہ 9 مئی کے حملے کیوں کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں سوشل میڈیا سیل ملک دشمنوں سے روابط کا بڑا ذریعہ تھا، اس سیل کے ذریعے پاک فوج اور سپہ سالار کے خلاف بھی مہم چلائی جا رہی تھی جس کے تانے بانے آج بھارت کے ساتھ مل رہے ہیں۔
عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خونی انقلاب کی باتیں کرنے کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی بھارت کا سپانسرڈ ایجنڈا لے کر چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو بھارتیوں نے بیرون ملک سے فارن فنڈنگ کی، جو تحقیقات میں سامنے آ چکی ہیں، اب بھارتی صحافی سے پی ٹی آئی رہنما کے رابطے ثابت کرتے ہیں کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے کہنے پر پاکستان مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ فارن فنڈڈ ٹولے نے ملک دشمنی کی ہر حد عبور کرلی ہے، کوئی شک نہیں رہا کہ ان کا اصل ہدف پاکستان کے قومی مفادات اور فوج کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر بھارتی ایجنڈا پورا کر رہے ہیں، پاکستان پر وار کرنے والے دہشت گردوں کو بھی اسی لیے واپس لائے تاکہ بھارتی ایجنڈا پورا ہو سکے۔
وزیر اطلاعات نے ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کا مہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم کو یہ اصلیت بھی معلوم ہو گئی کہ مرشد کا موکل فیض تھا، ’فیض‘ مرشد کا نہیں بلکہ فیض حمید کا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیض نیازی گٹھ جوڑ کے تانے بانے نیازی کے گھر بشریٰ سے بھی ملتے ہیں جو اِس گٹھ جوڑ میں ایک مرکزی کردار تھی۔ فیض، نیازی اور بشریٰ گٹھ جوڑ نے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ملک کو نقصان پہنچایا، فیض نیازی گٹھ جوڑ نے پاک فوج کے مخالف بیانیے بھی مل کر چلائے تاکہ ریٹائرڈ اور سرونگ آفیسرز کو بھڑکایا جا سکے اور لیڈرشپ کے خلاف اکسایا جائے۔ فیض نیازی گٹھ جوڑ نے یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ پاک فوج میں کسی قسم کی کنفیوژن یا تقسیم ہے۔
کہا جارہا ہے کہ امریکی صحافی رائن گرِم (Ryan Grim) کے بعد بھارتی صحافی کرن تھاپر کے ساتھ تحریک انصاف کے ترجمان کی بات چیت کے مندرجات اس سازش کو بے نقاب کرتے ہیں جو تحریک انصاف اپنے مذموم سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے رچاتی چلی آئی ہے۔ مزید یہ کہ رو¿ف حسن اور کرن تھاپر کے مابین نومبر 2019ءمیں شروع ہونے والے رابطوں کے انکشاف سے پتا چلتا ہے کہ رو¿ف حسن نے ہمیشہ پاکستان کے اداروں اور مختلف بین الاقوامی امور پہ پاکستان کی حکومتی پالیسیوں پہ ہرزہ سرائی کی۔ اطلاعات کے مطابق، مارچ 2023ءمیں رو¿ف حسن نے کرن تھاپر کو باور کروایا کہ پاکستان خونی انقلاب کے لیے بالکل تیار ہے۔ رو¿ف حسن کی یہ یقین دہانی 9 مئی کے واقعات سے فوراً پہلے کی گئی جو اس امر کی توثیق ہے کہ 9 مئی کے گھناو¿نے واقعات کی منصوبہ بندی اسی وقت کی گئی تھی اور بھارت کو پیشگی اطلاع دی جارہی تھی کہ ’ضرورت پڑنے پر‘ ان کی مدد درکار ہوگی۔
بھارتی صحافی کو ’پاکستان خونی انقلاب کے لیے تیار ہے‘ کا خود ساختہ عندیہ اپنے ازلی دشمن کو جو پاکستان کا وجود مٹانے کے درپے رہتا ہے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کی دعوت تھی۔ رو¿ف حسن کے ’غیر علانیہ مارشل لائی‘ اور ’فسطائیت‘ جیسے الفاظ کا استعمال بھارتی میڈیا کو مواد مہیا کرنا تھا تاکہ وہ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلے اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پاکستان کو بدنام کرنے کی اس سازش میں شریک ہو سکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی کہ کوئی نام نہاد سیاسی جماعت اقتدار کے حصول کے لیے اپنے دشمن ملک سے مدد مانگے۔ یہ ہوش ربا حقائق ان تمام عناصر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں جو ابھی بھی تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو ایک سیاسی عمل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سامنے آنے والے حقائق یہ واضح کر رہے ہیں کہ عمران خان طاقت کے حصول کے لیے ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ ہر پاکستانی کے لیے اذیت اور پریشانی کا باعث ہے خواہ اس کی سیاسی وابستگی کسی بھی نظریے اور جماعت سے ہو۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رو¿ف حسن کے غیر ملکی صحافیوں سے رابطے عام حالات میں معمول کی بات سمجھے جاتے لیکن مذکورہ سانحے کے پس منظر کے ساتھ یہ رابطے غیر معمولی حیثیت اختیار کرگئے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد جن افراد کو پولیس اور دیگر اداروں نے حراست میں لیا ان کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اور عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس سلسلے میں جو بھی فیصلے کریں گی وہ سب کو ماننے چاہئیں۔ لیکن کسی بھی شخص پر یہ الزام لگنا کہ وہ کچھ ایسے عناصر سے غیر معمولی رابطے رکھتا ہے جو اس کے ملک کے حق میں نہیں ہیں، اس شخص کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ای پیپر دی نیشن