پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کے بارے میں حاسد افواہیں اڑا رہے تھے کہ وہ پی ٹی آئی کے ’’پکّے‘‘ نہیں ہیں، کچھ کچھ کچّے ہیں اور پارٹی سے ان کی نظریاتی وفاداری کمزور ہے۔ وٹس ایپ پر ان کی بھارت کے مشہور صحافی کرن تھاپر سے گپ شپ کا جو ریکارڈ سامنے آیا ہے، اس سے ان افواہوں کی پکّی تردید اور نفی ہو گئی ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے نظریے سے سو فیصد وفادار ہیں، ان کی نظریاتی وفاداری ہرگز کچّی نہیں ہے۔
کرن تھاپر سے اس چَیٹ میں جو گاہے بگاہے بلکہ اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہے، رؤف حسن نے پاکستان کی بہت شکایتیں لگائیں، آرمی چیف کے خلاف دل کا غبار بھی دھویا اور بھارت کے سابق آرمی چیف پران ناتھ تھاپر کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ پاکستان میں خونی انقلاب بس آیا ہی چاہتا ہے۔
یہ خوشخبری گزشتہ سال مارچ میں سنائی گئی۔نو مئی اس کے ڈیڑھ ماہ بعد ہوا۔ سال سے اوپر چھ ماہ ہو گئے، بے چارے کرن تھاپر پاکستان کو خون خون سے غسل دئیے جانے کے منتظر ہیں۔ رؤف حسن کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ کرن تھاپر کو خونی انقلاب کے انجام کا بتا دیتے تاکہ ان کا انتظار ختم ہوتا۔ وہ بتا دیتے کہ متوقع خونی انقلاب کے ’’اجزا‘‘ منتشر ہو کر مختلف جیلوں میں پہنچ گئے اور جزو اعظم اڈیالہ میں ’’اڈّیاں‘‘ رگڑ رہا ہے۔
____
رؤف حسن نے یہ شکایت بھی لگائی کہ پاکستان روس یوکرائن جنگ میں یوکرائن کو ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔ یہ بے پرکی ڈیڑھ دو سال پہلے اڑائی گئی تھی اور پی ٹی آئی ہی کے صادق امین حضرات کی طرف سے اڑائی گئی تھی اور فوراً ہی اس کی تردید بھی آ گئی تھی۔ خود امریکہ نے بھی کہا تھا کہ اس بات کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ پاکستان نے یوکرائن کو اسلحہ دیا ہے۔
اس سوال کو اٹھانے کی کسی نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ایسا کون سا ’’تباہ کن‘‘ ہتھیار ہے جو پاکستان کے پاس تو موجود ہے اور نیٹو کا اسلحہ خانہ اس سے محروم ہے۔ یوکرائن کو بیشتر اسلحہ نیٹو ممالک دے رہے ہیں جن کی سرحد یوکرائن سے ملتی ہے۔ بہت سا اسلحہ امریکہ بھی دے رہا ہے۔
یوکرائن کو ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ سرحد پر موجود نیٹو سے اسلحہ لینے کے بجائے پاکستان سے ہتھیار لے جو بہت دور واقع ہے۔ پاکستان اگر یوکرائن کو اسلحہ خشکی کے راستے دے تو اسے پورا وسطی ایشیا، پھر خود روس کا علاقہ عبور کرنا پڑے گا اور اگر سمندر کے راستے سپلائی کرنا ہے تو بحیرہ عرب، اور بحیرہ احمر کو عبور کر کے نہر سویز کے راستے پورا بحیرہ روم پار کر کے آبنائے باسفورس سے ہو کر بحیرہ اسود میں جانا پڑے گا۔ اتنا بڑا کارِ دارد۔ پاکستان تو پھر سپرپاور ہوا۔ لیکن بڑا سوال وہی ہے کہ نیٹو اور امریکہ کے پاس وہ کون سا ہتھیار نہیں ہے جو پاکستان کے پاس ہے۔
بہرحال، ر?ف حسن نے بھارت کو شکایت لگانا تھی، سو لگا دی۔ اس کے نتیجے میں اور کچھ ہوا یا نہیں، یہ تو ہوا کہ ر?ف حسن کی پی ٹی آئی سے نظریاتی وابستگی کے پکّے ثبوت تو مل گئے۔
____
سوویت یونین سپرپاور تھا۔ ٹوٹ گیا تو اس کا جزو اعظم روس منی سپرپاور رہ گیا۔ یوکرائن سے اس کی جنگ اڑھائی تین سال سے چل رہی ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں روس منی سپرپاور بھی نہیں رہا۔ اب وہ جنگی صلاحیت اور طاقت کے اعتبار سے اسی درجہ بندی میں آ گیا ہے جس میں ایران پہلے سے موجود ہے۔ روس تو اب ترکی کی ٹکر کا بھی نہیں رہا۔
اس جنگ میں روس جارح ہے۔ پہلے اس نے جزیرہ نمائے کرائمیا یوکرائن سے چھینا، پھر اس کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ان علاقوں میں روسی نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ یہ روسی نسل کے لوگ سوویت دور میں یہاں بسائے گئے تھے۔ یہ کیسی دلیل ہے قبضہ کرنے کی۔
یوکرائن نے اس جنگ میں روس کی آدھی سے زیادہ فوج تلف کر دی۔ روسی معیشت کا بھرکس نکل گیا۔ چین نے پورا پورا سہارا دیا ورنہ سارا روس ہمارے ’’تھر‘‘ کے علاقے کا ’’ری پلیکا‘‘ بنا ہوتا۔ چین کے سہارے نے روس کو پھر اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔
یوکرائن نے پچھلے ہفتے روس کے علاقے کرسلک پر عارضی قبضہ کر لیا۔ روسی فوج پسپا ہو گئی۔ اس کے فوجی ہیڈ کوارٹر یوکرائنی فوج نے پیوند زمین کر دئیے، ہوائی اڈے اڑا ڈالے۔ روس کو بھونچکا کئے رکھنے کے بعد یوکرائنی فوج واپس آ گئی ہے۔
____
کرائمیا کا علاقہ پہلے مسلمانوں کا ہوا کرتا تھا۔ ترکی خلافت کے دور سے یہ علاقہ ’’مسلمان اکثریت‘‘ کا ملک تھا۔ پھر سٹالن نے یہاں کے تمام مسلمانوں کو نکال کر سائبریا جانے کا حکم دیا اور کہا کہ سائبریا میں تمہارے لئے گھر بنیں گے۔
وہاں کوئی شہر نہیں تھا۔ خون جما دینے والی سردی تھی ، سارے کے سارے مسلمان مر گئے، ایک بھی نہیں بچا۔ مسلمان کرائمیا قصّہ ماضی بن گیا۔ یہ قتل عام 1944ء میں ہوا۔ کرائمیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی ذمہ داری سوویت یونین کے سیکورٹی چیف بدنام زمانہ لاورینتی بیریا BERIA نے لی۔
____
پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے کچھ ارکان اسمبلی تحریک عدم اعتماد کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ سرخیل اس کے شکیل خاں ہیں جنہوں نے کرپشن کیخلاف آواز اٹھائی اور گنڈاپور وزیر اعلیٰ نے انہیں برطرف کر دیا۔ شکیل خاں نے الزام لگایا کہ پختونخواہ حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے اور صرف ایک سودے میں گنڈاپور نے 20 کروڑ روپے کی رشوت لی۔
صرف 20 کروڑ کی اوقات ہی کیا۔ محکمہ جنگلات اور تعمیرات دونوں محکموں میں سالانہ سینکڑوں ارب کی کرپشن ہو رہی ہے اور آج سے نہیں، پی ٹی آئی کے پانچ پانچ سال کے دو دور کرپشن میں پورے پاکستان کی اجتماعی تاریخ کرپشن،، پر بھاری تھے۔ سابق دو وزرائے اعلیٰ نے اربوں کما کے، گنڈا پور نے تو ابھی شروعات ہی کی ہے۔
اطلاع ہے کہ شکیل خاں گروپ میں 30 ارکان اسمبلی ہیں اگرچہ دعویٰ ان کا 35 کا ہے لیکن 35 نہیں ہیں۔ کم سے کم ابھی تک نہیں ہیں، ہو سکتا ہے ہو جائیں۔ سرکاری جماعت کے ارکان کی کل تعداد 91 ہے۔ گویا 61 ابھی تک گنڈاپور کے ساتھ ہیں۔ اسمبلی میں جنرل سیٹوں کی کل تعداد 115 ہے۔ یہ لوگ تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں لیکن مزید 5 کو ساتھ ملائے بغیر، اپوزیشن کے تمام لوگوں کی شمولیت بھی بے کار ہو گی۔
عمران خان نے اپنا وزن گنڈاپور کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔ پارٹی کے اہم ذمہ داروں کے مطابق باغیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اس صورت میں خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
پختونخواہ میں عدم اعتماد۔
Aug 20, 2024