ایک اور بجٹ، مولانا فضل الرحمن کی منفی سیاست اور سستی بجلی!!!!!

سستی بجلی ان دنوں ایسے ہی ہے کہ جیسے ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے، سستی بجلی ایسے ہی جیسے صحرا میں پھول کھلنے کی خبر ہو، سستی بجلی ایسے ہی ہے جیسے برسوں سے بے روزگار کو ذریعہ روزگار میسر آئے، سستی بجلی ایسے ہی ہے جیسے طویل مسافت کے بعد منزل، بہرحال ان دنوں سستی بجلی ملے نہ ملے زندگی خاصی سستی ہو چکی ہے، اشیاء خوردونوش کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں سستی بجلی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک طرف پنجاب حکومت نے بجلی صارفین کو رعایت دینے کا پلان بنایا ہے اور میاں نواز شریف نے اس حوالے سے تفصیلات میڈیا کے سامنے بھی رکھی ہیں بعد میں پنجاب حکومت نے اسلام آباد کے شہریوں کو بھی سستی بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد دیگر صوبوں کی حکومتوں کو بھی خیال آ رہا ہے کہ انہیں بھی یہ کام کرنا چاہیے لیکن دیکھ سب وفاق کی طرف رہے ہیں کہ یہ نیک کام وفاق نے کرنا ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ بجلی کی قیمت میں کمی اپنے بجٹ سے کر رہے ہیں یعنی پنجاب اس کام میں وفاق پر بوجھ نہیں بن رہا۔ یہ ایک اچھی سوچ ہے اور صوبوں کو ناصرف اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے بلکہ شہریوں کو سہولیات کی فراہمی میں بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وفاق کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مہنگائی کے اس طوفان کو قابو کرنے کی کوشش کرے، ٹیکس کا نظام بہتر بنائے، ٹیکس اکٹھا کرنے اور کس پر کتنا ٹیکس عائد کرنا ہے ان معاملات میں حقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ بظاہر وفاقی حکومت اس معاملے میں کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے ٹیکس وصولی کا ہدف ساٹھ ارب روپے کے مارجن سے پورا نہیں کیا تو پھر ٹیکس مشینری کو موجودہ مالی سال کے دوران ایک ہنگامی منصوبہ نافذ کرنا ہو گا۔ یعنی رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں کے لیے ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کرنا ہو گا ورنہ منی بجٹ آنے کا امکان ہے۔یہ خبر مالی مشکلات سے دوچار اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے کروڑوں پاکستانیوں کے لیے کچھ اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس خبر سے تو پہلے سے مرجھائے چہرے اور ہی زرد کو جائیں گے۔ بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو حکومت جیسے نچوڑ رہی ہے اگر منی بجٹ آیا مزید ٹیکس لگے پھر تو صرف یہی ہو گا کہ تنخواہ دار دفتر تنخواہ لینے نہیں بلکہ صرف ٹیکس کٹوانے ہی جایا کریں گے۔ سو حکومت اگر ٹیکس لینا چاہتی ہے تو لوگوں کو ٹیکس دینے کے قابل بھی بنانا ہو گا۔ ٹیکس اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں، ٹیکس نظام کو بہتر بنایا جائے، آج بھی اس نظام میں بنیادی خامیاں موجود ہیں اگر ان خامیوں کو دور نہیں کیا جاتا تو ٹیکس وصولی کے اہداف کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا پھر ہر وقت آئی ایم ایف کی تلوار سروں پر لٹکتی رہے گی۔ 
ایک طرف خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت بجلی سستی کرنے کے اقدامات کر رہی ہے اور دو مہینوں کے لیے کچھ ریلیف دیا جا رہا ہے وہیں بجلی کمپنیوں نے عوام کی جیبوں سے اربوں نکلوانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ پنجاب حکومت اسلام آباد کے شہریوں کو بھی دو مہینے کے لیے سستی بجلی دے رہی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر اسلام آباد کی بجلی کمپنی کے ساتھ لاہور گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کی بجلی کمپنیوں کو خطوط بھیج دئیے گئے ہیں۔
سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ دو سو ایک سے پانچ سو یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو اگست اور ستمبر کے مہینوں میں چودہ روپے فی یونٹ سستا دیا جائے گا۔ دوسری طرف بجلی کمپنیوں نے صارفین کی جیبوں سے چھیالیس ارب ننانوے کروڑ  روپے نکلوانیکی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے اس حوالے سے گذشتہ مالی سال کی آخری سہ ماہی کی مد میں درخواست نیپرا میں جمع کرا دی ہے۔ نیپرا کے مطابق کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں بائیس ارب چھیاسی کروڑ روپے مانگے گئے ہیں، آپریشنز اینڈ مینٹیننس کی مد میں چار ارب روپے شامل، یوز آف سسٹم چارجز اینڈ مارکیٹنگ فیس کی مد میں سات ارب اکاون کروڑ مانگے گئے ہیں، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی مد میں دس ارب اسی کروڑ شامل ہیں۔ رواں ماہ کے آخری ہفتے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی درخواست پر سماعت متوقع ہے۔ پنجاب کی طرف سے سستی بجلی کی فراہمی کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سندھ میں پنجاب کی طرح بجلی سستی کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو خط لکھنے کا اعلان کیا تو ایک نیا سیاسی محاذ کھلا کیونکہ گورنر سندھ کا تعلق تو پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں ہیں اس لیے ان کے ایسے کسی بھی قدم یا فیصلے کو سیاسی حملہ ہی سمجھا جائے گا اور پاکستان پیپلز پارٹی پر اس کا جواب لازم ہو گا۔ سو وہ جواب آنا ہی تھا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری پنجاب کی طرز پر سستی بجلی کے اعلان پر متحرک ہوئے اور انہوں نے سندھ میں پنجاب کی طرح بجلی سستی کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو خط لکھنے کا اعلان کیا تو سندھ حکومت ترجمان و میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے گورنر سندھ کو جواب دیا اور کہا کہ کامران ٹیسوری سندھ میں وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں، بجلی کے ٹیرف کا معاملہ وفاق کی ذمہ داری ہے۔ گورنر وفاقی حکومت کے سامنے سندھ کے عوام کا مسئلہ اٹھائیں۔ جناب ترجمان صاحب پنجاب اپنے بجٹ میں سے بجلی صارفین کو رعایت دے رہا ہے آپ بجائے ریلیف کے گورنر سندھ کو اسلام آباد سفر کا مشورہ دے رہے ہیں اس سے بہتر مشورہ تو آپ اپنے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو دے سکتے ہیں اگر آپ کوئی اچھا مشورہ دینا چاہیں لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر بیان کا جواب صرف بیان اور کسی منطق کو خاطر میں لائے بغیر دینا ہے تو جیسے آپ کی مرضی لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ پنجاب نے دو ماہ کے لیے اپنے شہریوں کے لیے سستی بجلی کا منصوبہ اپنے بجٹ سے کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن سے میں نے ہمیشہ گذارش کی ہے وہ کم از کم قومی معاملات میں نسبتا بہتر سوچ اور خیالات کا اظہار کیا کریں۔ اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر سی پیک، پاکستان، چین کے تعلقات اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ امریکا کو سی پیک بند کرنے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے اور چین سے سی پیک بنانے کے عوض پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ مولانا کی اس بات پر چین کیا سمجھے گا اور کیا ان کا یہ بیان امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ہے یا پھر دو عالمی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ چینی حکام جانتے ہیں کہ کون سی پیک مخالف ہے اور اس منصوبے کو کیسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو چینی حکام بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مظاہرے خالصتا سی پیک کے عمل کو سست کرنے یا ترقی کے اس عمل رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ہیں۔ اس لیے مولانا سے گذارش ہے کہ اپنی سیاست ضرور کریں لیکن ملکی ترقی کو داو پر نہ لگائیں۔
آخر میں شہزاد احمد کا کلام
رْخصت    ہوا   تو    آنکھ   مِلا    کر   نہیں   گیا 
وہ   کیوں   گیا  ہے   یہ  بھی  بتا  کر  نہیں   گیا 
وہ    یوں    گیا     کہ     بادِ    صبا  یاد    آ   گئی 
احساس   تک   بھی   ہم   کو   دِلا  کر  نہیں  گیا 
یوں   لگ   رہا   ہے   جیسے   ابھی   لوٹ  آئے  گا 
جاتے    ہوئے    چراغ     بْجھا    کر     نہیں   گیا 
بس     اِک     لکیر    کھینچ    گیا   درمیان   میں 
دیوار     راستے     میں     بنا     کر    نہیں    گیا 
شاید وہ  مل  ہی  جائے  مگر  جستجو  ہے  شرط 
وہ   اپنے    نقشِ   پا   تو   مِٹا   کر   نہیں   گیا 
گھر  میں   ہے  آج  تک  وہی  خوشبو  بسی  ہوئی 
لگتا   ہے   یوں   کہ   جیسے   وہ  آ  کر  نہیں  گیا 
تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اْس کی یاد 
جب   تک   وہ   پتیوں   کو   جْدا   کر   نہیں  گیا 
رہنے  دیا   نہ   اْس   نے    کسی    کام   کا  مْجھے 
اور خاک  میں  بھی  مْجھ  کو  ملا  کر  نہیں  گیا 
ویسی  ہی  بے   طلب   ہے   ابھی   میری   زندگی 
وہ   خار  و  خس   میں   آگ    لگا   کر  نہیں  گیا 
شہزاد یہ   گِلَہ   ہی   رہا   اْس   کی   ذات   سے 
جاتے   ہوئے    وہ    کوئی    گِلَہ    کر   نہیں   گیا

ای پیپر دی نیشن