ہمارے ملک میں توانائی کے ذرائع یعنی گیس ، بجلی، پٹرولیم مصنوعات کا استعمال بتدریج بڑھتا جا رہا ہے لیکن اس کی سپلائی میں اضافہ نہیں ہو رہا۔اسی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ طلب میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ ائیر کنڈیشنرز، گیزرز، کپڑے دھونے کی مشین اور بجلی سے چلنے والی دیگر اشیاء کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔صنعتی ضروریات میں بھی دو تین سال میں اضافہ ہوا ہے۔ دور دراز علاقوں میں بجلی اور گیس کی فراہمی کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سارے عوامل مل کر ملک میں بجلی اور گیس کی قلت پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں۔موسم سرما میں گیس کی طلب بڑھ جانے کے ساتھ ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ ( اس کے علاوہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بھی عوام کو سامنا کرنا ہوتا ہے)گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے سو ئی ناردرن کمپنی نے پنجاب میں صنعتوں کو گیس کی فراہمی تا حکم ثانی بند کر دی ہے۔اس فیصلہ کے خلاف صوبہ بھر میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔اس سے لاکھوں مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
گیس کی قلت دور کرنے کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔ ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ابتدا میں اس منصوبے میں بھارت بھی شامل تھا۔تجویز یہ تھی کہ پائپ لائن کے ذریعہ گیس ایران سے پاکستان لائی جائیگی اور پھر یہاں سے بھارت سپلائی ہو گی۔امریکہ کو اس منصوبہ پر تحفظات تھے اور اس نے اس منصوبے کی مخالفت بھی کی۔ایران کے نیوکلیائی پروگرام کی وجہ سے امریکہ ایران پر پابندیاں لگا کر اسے سفارتی، سیاسی اور اقتصادی طور پر تنہا کرنا چاہتا تھا۔پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں پر امریکہ نے دبائو ڈالا۔پاکستان نے تو اپنے قومی مفاد کے پیش نظر امریکی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیاالبتہ بھارت جو نیا نیا امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بنا تھااور امریکہ سے معاہدہ کر کے نیو کلیئر مفادات حاصل کرنا چاہتا تھا، اس معاہدہ سے باہر نکل گیا۔لیکن پاکستان اور ایران دونوں اس پر قائم ہیںاور اس منصوبہ پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے بھی قدرتی گیس حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
قدرتی گیس درآمد کرنے کے چار ملکی منصوبہ پرترکمانستان کے شہر اشک آبادمیں حال ہی میں دستخط ہوئے ہیں۔ یہ چار ملک ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور (انڈیا) بھارت ہیں۔اس منصوبہ کو تاپی (TAPI)گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا ہے۔دستخط کرنے کی تقریب میں پاکستان کے صدر آصف زرداری، افغان صدر کرزئی، ترکمانستان کے صدر ممدوف شامل تھے ۔ بھارت کے وزیراعظم یورپ کے دورے پر تھے ان کی طرف سے بھارت کے وزیر پٹرولیم نے دستخط کئے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر بھی معاہدہ پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔1630 کلو میٹر طویل اس پائپ لائن میں7.6ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ پائپ لائن افغان سرحد کے قریب ترکمانستان کے شہر دولت آباد سے شروع ہو گی۔ افغانستان کے صوبے ہرات اور قندھار سے گزرتی ہوئی کوئٹہ پہنچے گی جہاں سے ملتان کے راستے ہوتی ہوئی انڈیا کے شہرفاضلکا تک جائیگی۔ اندرون ملک گیس سپلائی کرنے کا کام بھارتی حکومت خود کریگی۔مجوزہ گیس پائپ لائن سے 3.2 ارب مکعب فٹ قدرتی گیس یومیہ فراہم ہو گی۔ منصوبے کی تکمیل کا ٹارگٹ20-13-14 یعنی تین سال کا عرصہ رکھا گیا ہے۔ معاہدہ میں شامل چاروں ملک پائپ لائن کے تحفظ کا اہتمام کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ افغانستان میں پائپ لائن کی لمبائی 735کلو میٹر اور پاکستان میں 800 کلو میٹر ہو گی۔اس منصوبہ کی سرمایہ کاری امریکہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کرینگے۔اس منصوبہ کو امریکہ کا حمایت یافتہ قرار دیا گیا ہے۔اس سے پہلے منصوبہ (I.P.I)ایران پاکستان انڈیا، پر ایران کے نیوکلیائی پروگرام کی وجہ سے امریکہ کو تحفظات تھے۔
منصوبے کے مکمل ہو جانے سے پاکستان کو قدرتی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں بہت مدد مل سکے گی۔ لیکن اس منصوبہ کا بروقت مکمل ہو جانااتنا آسان نظر نہیں آتا۔افغانستان کی داخلی صورت حال امن و امان کے حوالے سے مخدوش ہے، اور اس سے کسی قدر بہتر پاکستان کے اس علاقے کی ہے جہاں سے تاپی گیس پائپ لائن گزرے گی۔افغان حکومت کا کنٹرول سر دست تو کابل سے باہر نظر نہیںآتا۔ ہر چند کہ افغان صدر نے پائپ لائن کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کے لئے 7000افراد پر مشتمل فورس تعینات کرنے کی نوید بھی دی ہے۔ لیکن اگلے دو تین سال تک افغانستان کی صورت کیا شکل اختیار کرتی ہے کہا نہیں جا سکتا۔سردست وہ علاقہ جہاںسے پائپ لائن گزرے گی طالبان کے زیر اثر ہے اور طالبان فی الوقت افغان حکومت سے بر سر پیکار ہیں ۔کم و بیش ایسی ہی کیفیت بلوچستان کی ہے۔یعنی پاکستان کا وہ صوبہ جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے گی ان دنوں انسرجنسی کا شکار ہے۔ بلوچ قوم پرست حکومت کے خلاف صف آراء ہیں۔ دراصل جغرافیہ اور معدنی وسائل کے اعتبار سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ماضی میںانصاف نہیں ہوا۔بلوچ عوام کو شکایت ہے کہ انہیںان کا حق نہیں ملا۔اسی وجہ سے وہ اب تشدد پر اتر آئے ہیں۔غیر بلوچ (بالخصوص پنجابی) شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھتی ہوئی تعداد میں ہونے لگے ہیں۔اسی طرح ان لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانااپنے مشن کا حصہ بنا لیا ہے۔
یہ بات پورے اطمینان سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان اور ہمارے بلوچستان کے داخلی حالات اس منصوبے کو بروقت مکمل ہونے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔ اگر یہ منصوبہ بر وقت مکمل ہو جاتا ہے تویہ اس علاقہ کی معاشی ترقی میں بڑی پیش رفت ممکن ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ تاپی منصوبے سے افغانستان کو روزانہ 5سو ملین مکعب فٹ گیس ملے گی۔ جب کہ پاکستان کو یومیہ 1325ملین مکعب فٹ گیس ملے گی۔ اتنی ہی آگے انڈیا تک جائے گی۔ صدر زرداری نے اپنے اس تاریخی معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے مکمل ہونے سے پورے خطے کا ترقیاتی منظر ہی بدل جائے گا اور ہر طرف خوشحالی کی لہر بہر ہو گی۔صدر زرداری نے منصوبے میں شریک ممالک پر زور دے کر کہا کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لئے نظام اوقات اور دیگر ضروری اقدامات پر متفق ہوں۔ صدر موصوف نے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستانی بندرگاہیں استعمال کرنے کی پیش کش بھی کی۔ انہوں نے کہا تاپی منصوبہ خطے کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہو گا اور یہ پائپ لائن وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیا کو باہم ملا دیگی۔ صدر زرداری نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اس منصوبے سے ثمرات حاصل کرنے کی خاطر مل جل کر کام کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر علاقائی ترقیاتی تعاون خطے میں پائیدار امن اور اقتصادی ترقی کے فروغ کی کنجی ہے۔ پاکستان اس منصوبے پر جلد اور بھر پور عمل درآمد کیلئے پر عزم ہے اور اپنا موثر کردار ادا کرے گا۔
اشک آباد میں ایشیائی ترقیاتی بنک کے صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ کو ممکن بنانا آسان نہ تھا کیونکہ پائپ لائن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ اس پر عمل درآمد کیلئے ایشیائی بنک مدد کیلئے تیار ہے رائٹر نے اسے امریکہ کا حمایت یافتہ منصوبہ قرار دیا ہے۔ پاک ایران پائپ لائن منصوبے پر امریکہ کو تحفظات ہیں جس کی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ اس منصوبہ کے راستہ میںامریکہ مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔دوسری طرف ایک انڈین سفارت کار کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکی مخالفت اور دبائو کے باوجود اسے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو گا۔ انڈیا اب گلوبل مارکیٹ میں ایک لیڈنگ کھلاڑی کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسے توانائی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ تاپی منصوبہ سے اسے صرف اتنی گیس میسر آئے گی جتنی پاکستان کو، حالانکہ رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے انڈیا پاکستان سے کہیں بڑا ہے۔ لہٰذا ان کا ملک ایران ۔پاکستان۔انڈیا منصوبہ کو ترک کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اگر انڈیااپنے اس موقف پر قائم رہتا ہے تو اس سے اس منصوبہ کیلئے امریکی مزاحمت کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔امریکہ انڈیا کو چین کے خلاف معاشی اعتبار سے بھی عالمی طاقت دیکھنا چاہتا ہے تاکہ چین کے گرد امریکہ موافق گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ امریکہ کے نئے سٹریٹیجک پارٹنر کا گزارا ایران کی گیس کے بغیر نہ ہو سکا تو ممکن ہے امریکہ اس منصوبہ کی مخالفت سے ہاتھ کھینچ لے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ ابھی تک توانائی کی اپنی ضروریات کی وجہ سے ثابت قدمی کی ساتھ اس منصوبہ پر ڈٹا ہوا ہے۔
جنوبی ایشیائی توانائی کی ضروریات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہیں۔ بالخصوص بھارت جو معاشی اعتبار سے بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اسی شرح سے اس کی توانائی کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گو پاکستان کی حالت بھارت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ غیر مستحکم ہے۔ اسے توانائی کے ہر شعبہ میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بجلی۔پٹرولیم اورگیس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تاپی منصوبہ کے کامیابی سے مکمل ہونے پر پاکستان کی امیدیں باندھنا ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن اس منصوبہ کے راستہ میں کچھ دشواریاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ان علاقوں میں جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے کی اس کے تحفظ کی ضمانت دینا آسان کام نہیں۔ ہر چند کہ افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستان کے صدر زرداری دونوں نے پائپ لائن کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔کرزئی حکومت کو کابل سے باہر افغانستان کے کم علاقوں پر ہی کنٹرول حاصل ہے۔ خداکرے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور حکومت ملک کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر سکے۔سر دست یہ کام دشوار نظر آتا ہے۔اسی طرح بلوچستان کے حالات بھی مخدوش ہیں۔گیس سپلائی لائن اور بجلی کی تنصیبات آئے دن دہشت گردی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور یہاں بھی حالات کو مکمل طور پر کنٹرول میں لانے کے لئے وقت درکار ہو گا۔
دوسری دقت اس منصوبہ کی لاگت کی ہے 7.6 ارب ڈالر کی رقم فراہم کرنے کے لئے جو منصوبہ کی مجموعی لاگت کا تخمینہ ہے ایشیائی ترقیاتی بینک اور امریکہ نے برداشت کرنے کا ذمہ لیا ہے۔رقم فراہم کرنے کے لئے ان دونوں بالخصوص امریکہ کی کچھ شرائط ہو سکتی ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جاری امریکہ کی جنگ سے ہو گا۔امریکہ چاہے گا کہ یہ دونوں ملک اس جنگ اور اس کے خاتمے سے متعلق امریکہ کی ہر بات مانیں۔ ایسا کرنا کہاں تک ممکن ہو گا، اور اس کا منصوبے کی تکمیل پر کیا اثر ہو گا؟ وقت ہی بتائے گا۔بہر حال یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور علاقائی ممالک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔پاکستان کی خواہش اور دعا ہے کہ کامیابی کے ساتھ بر وقت مکمل ہو۔
گیس کی قلت دور کرنے کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔ ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ابتدا میں اس منصوبے میں بھارت بھی شامل تھا۔تجویز یہ تھی کہ پائپ لائن کے ذریعہ گیس ایران سے پاکستان لائی جائیگی اور پھر یہاں سے بھارت سپلائی ہو گی۔امریکہ کو اس منصوبہ پر تحفظات تھے اور اس نے اس منصوبے کی مخالفت بھی کی۔ایران کے نیوکلیائی پروگرام کی وجہ سے امریکہ ایران پر پابندیاں لگا کر اسے سفارتی، سیاسی اور اقتصادی طور پر تنہا کرنا چاہتا تھا۔پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں پر امریکہ نے دبائو ڈالا۔پاکستان نے تو اپنے قومی مفاد کے پیش نظر امریکی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیاالبتہ بھارت جو نیا نیا امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بنا تھااور امریکہ سے معاہدہ کر کے نیو کلیئر مفادات حاصل کرنا چاہتا تھا، اس معاہدہ سے باہر نکل گیا۔لیکن پاکستان اور ایران دونوں اس پر قائم ہیںاور اس منصوبہ پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے بھی قدرتی گیس حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
قدرتی گیس درآمد کرنے کے چار ملکی منصوبہ پرترکمانستان کے شہر اشک آبادمیں حال ہی میں دستخط ہوئے ہیں۔ یہ چار ملک ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور (انڈیا) بھارت ہیں۔اس منصوبہ کو تاپی (TAPI)گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا ہے۔دستخط کرنے کی تقریب میں پاکستان کے صدر آصف زرداری، افغان صدر کرزئی، ترکمانستان کے صدر ممدوف شامل تھے ۔ بھارت کے وزیراعظم یورپ کے دورے پر تھے ان کی طرف سے بھارت کے وزیر پٹرولیم نے دستخط کئے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر بھی معاہدہ پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔1630 کلو میٹر طویل اس پائپ لائن میں7.6ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ پائپ لائن افغان سرحد کے قریب ترکمانستان کے شہر دولت آباد سے شروع ہو گی۔ افغانستان کے صوبے ہرات اور قندھار سے گزرتی ہوئی کوئٹہ پہنچے گی جہاں سے ملتان کے راستے ہوتی ہوئی انڈیا کے شہرفاضلکا تک جائیگی۔ اندرون ملک گیس سپلائی کرنے کا کام بھارتی حکومت خود کریگی۔مجوزہ گیس پائپ لائن سے 3.2 ارب مکعب فٹ قدرتی گیس یومیہ فراہم ہو گی۔ منصوبے کی تکمیل کا ٹارگٹ20-13-14 یعنی تین سال کا عرصہ رکھا گیا ہے۔ معاہدہ میں شامل چاروں ملک پائپ لائن کے تحفظ کا اہتمام کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ افغانستان میں پائپ لائن کی لمبائی 735کلو میٹر اور پاکستان میں 800 کلو میٹر ہو گی۔اس منصوبہ کی سرمایہ کاری امریکہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کرینگے۔اس منصوبہ کو امریکہ کا حمایت یافتہ قرار دیا گیا ہے۔اس سے پہلے منصوبہ (I.P.I)ایران پاکستان انڈیا، پر ایران کے نیوکلیائی پروگرام کی وجہ سے امریکہ کو تحفظات تھے۔
منصوبے کے مکمل ہو جانے سے پاکستان کو قدرتی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں بہت مدد مل سکے گی۔ لیکن اس منصوبہ کا بروقت مکمل ہو جانااتنا آسان نظر نہیں آتا۔افغانستان کی داخلی صورت حال امن و امان کے حوالے سے مخدوش ہے، اور اس سے کسی قدر بہتر پاکستان کے اس علاقے کی ہے جہاں سے تاپی گیس پائپ لائن گزرے گی۔افغان حکومت کا کنٹرول سر دست تو کابل سے باہر نظر نہیںآتا۔ ہر چند کہ افغان صدر نے پائپ لائن کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کے لئے 7000افراد پر مشتمل فورس تعینات کرنے کی نوید بھی دی ہے۔ لیکن اگلے دو تین سال تک افغانستان کی صورت کیا شکل اختیار کرتی ہے کہا نہیں جا سکتا۔سردست وہ علاقہ جہاںسے پائپ لائن گزرے گی طالبان کے زیر اثر ہے اور طالبان فی الوقت افغان حکومت سے بر سر پیکار ہیں ۔کم و بیش ایسی ہی کیفیت بلوچستان کی ہے۔یعنی پاکستان کا وہ صوبہ جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے گی ان دنوں انسرجنسی کا شکار ہے۔ بلوچ قوم پرست حکومت کے خلاف صف آراء ہیں۔ دراصل جغرافیہ اور معدنی وسائل کے اعتبار سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ماضی میںانصاف نہیں ہوا۔بلوچ عوام کو شکایت ہے کہ انہیںان کا حق نہیں ملا۔اسی وجہ سے وہ اب تشدد پر اتر آئے ہیں۔غیر بلوچ (بالخصوص پنجابی) شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھتی ہوئی تعداد میں ہونے لگے ہیں۔اسی طرح ان لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانااپنے مشن کا حصہ بنا لیا ہے۔
یہ بات پورے اطمینان سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان اور ہمارے بلوچستان کے داخلی حالات اس منصوبے کو بروقت مکمل ہونے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔ اگر یہ منصوبہ بر وقت مکمل ہو جاتا ہے تویہ اس علاقہ کی معاشی ترقی میں بڑی پیش رفت ممکن ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ تاپی منصوبے سے افغانستان کو روزانہ 5سو ملین مکعب فٹ گیس ملے گی۔ جب کہ پاکستان کو یومیہ 1325ملین مکعب فٹ گیس ملے گی۔ اتنی ہی آگے انڈیا تک جائے گی۔ صدر زرداری نے اپنے اس تاریخی معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے مکمل ہونے سے پورے خطے کا ترقیاتی منظر ہی بدل جائے گا اور ہر طرف خوشحالی کی لہر بہر ہو گی۔صدر زرداری نے منصوبے میں شریک ممالک پر زور دے کر کہا کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لئے نظام اوقات اور دیگر ضروری اقدامات پر متفق ہوں۔ صدر موصوف نے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستانی بندرگاہیں استعمال کرنے کی پیش کش بھی کی۔ انہوں نے کہا تاپی منصوبہ خطے کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہو گا اور یہ پائپ لائن وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیا کو باہم ملا دیگی۔ صدر زرداری نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اس منصوبے سے ثمرات حاصل کرنے کی خاطر مل جل کر کام کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر علاقائی ترقیاتی تعاون خطے میں پائیدار امن اور اقتصادی ترقی کے فروغ کی کنجی ہے۔ پاکستان اس منصوبے پر جلد اور بھر پور عمل درآمد کیلئے پر عزم ہے اور اپنا موثر کردار ادا کرے گا۔
اشک آباد میں ایشیائی ترقیاتی بنک کے صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ کو ممکن بنانا آسان نہ تھا کیونکہ پائپ لائن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ اس پر عمل درآمد کیلئے ایشیائی بنک مدد کیلئے تیار ہے رائٹر نے اسے امریکہ کا حمایت یافتہ منصوبہ قرار دیا ہے۔ پاک ایران پائپ لائن منصوبے پر امریکہ کو تحفظات ہیں جس کی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ اس منصوبہ کے راستہ میںامریکہ مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔دوسری طرف ایک انڈین سفارت کار کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکی مخالفت اور دبائو کے باوجود اسے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو گا۔ انڈیا اب گلوبل مارکیٹ میں ایک لیڈنگ کھلاڑی کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسے توانائی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ تاپی منصوبہ سے اسے صرف اتنی گیس میسر آئے گی جتنی پاکستان کو، حالانکہ رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے انڈیا پاکستان سے کہیں بڑا ہے۔ لہٰذا ان کا ملک ایران ۔پاکستان۔انڈیا منصوبہ کو ترک کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اگر انڈیااپنے اس موقف پر قائم رہتا ہے تو اس سے اس منصوبہ کیلئے امریکی مزاحمت کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔امریکہ انڈیا کو چین کے خلاف معاشی اعتبار سے بھی عالمی طاقت دیکھنا چاہتا ہے تاکہ چین کے گرد امریکہ موافق گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ امریکہ کے نئے سٹریٹیجک پارٹنر کا گزارا ایران کی گیس کے بغیر نہ ہو سکا تو ممکن ہے امریکہ اس منصوبہ کی مخالفت سے ہاتھ کھینچ لے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ ابھی تک توانائی کی اپنی ضروریات کی وجہ سے ثابت قدمی کی ساتھ اس منصوبہ پر ڈٹا ہوا ہے۔
جنوبی ایشیائی توانائی کی ضروریات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہیں۔ بالخصوص بھارت جو معاشی اعتبار سے بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اسی شرح سے اس کی توانائی کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گو پاکستان کی حالت بھارت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ غیر مستحکم ہے۔ اسے توانائی کے ہر شعبہ میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بجلی۔پٹرولیم اورگیس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تاپی منصوبہ کے کامیابی سے مکمل ہونے پر پاکستان کی امیدیں باندھنا ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن اس منصوبہ کے راستہ میں کچھ دشواریاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ان علاقوں میں جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے کی اس کے تحفظ کی ضمانت دینا آسان کام نہیں۔ ہر چند کہ افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستان کے صدر زرداری دونوں نے پائپ لائن کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔کرزئی حکومت کو کابل سے باہر افغانستان کے کم علاقوں پر ہی کنٹرول حاصل ہے۔ خداکرے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور حکومت ملک کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر سکے۔سر دست یہ کام دشوار نظر آتا ہے۔اسی طرح بلوچستان کے حالات بھی مخدوش ہیں۔گیس سپلائی لائن اور بجلی کی تنصیبات آئے دن دہشت گردی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور یہاں بھی حالات کو مکمل طور پر کنٹرول میں لانے کے لئے وقت درکار ہو گا۔
دوسری دقت اس منصوبہ کی لاگت کی ہے 7.6 ارب ڈالر کی رقم فراہم کرنے کے لئے جو منصوبہ کی مجموعی لاگت کا تخمینہ ہے ایشیائی ترقیاتی بینک اور امریکہ نے برداشت کرنے کا ذمہ لیا ہے۔رقم فراہم کرنے کے لئے ان دونوں بالخصوص امریکہ کی کچھ شرائط ہو سکتی ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جاری امریکہ کی جنگ سے ہو گا۔امریکہ چاہے گا کہ یہ دونوں ملک اس جنگ اور اس کے خاتمے سے متعلق امریکہ کی ہر بات مانیں۔ ایسا کرنا کہاں تک ممکن ہو گا، اور اس کا منصوبے کی تکمیل پر کیا اثر ہو گا؟ وقت ہی بتائے گا۔بہر حال یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور علاقائی ممالک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔پاکستان کی خواہش اور دعا ہے کہ کامیابی کے ساتھ بر وقت مکمل ہو۔