چینی ، نکتہ چینی کے بعد اب نمکین بحران کی آمد

ہمارے ملک کے حکمران پچھلے تقریباً3سال سے چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں بحران ورثے میں ملے ہیں تو عوام پوچھتے ہیں کہ بحران اگرورثے میں ملے ہیں تو اقتدار بھی توورثے میں ہی ملا ہے۔ بحرانوں سے نمٹنا ممکن نہیں ہے تو پھر حکمرانی کرنے کا کیا فائدہ۔ اگر ہمارے معزز حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ بحران ان پر حاوی ہو گئے ہیں تو اقتدار چھوڑ کر لائن کے اس طرف شوروغوغا کرتی عوام کی طرف کھڑے ہو جائیں اور اپنی آواز ان کی آواز میں ملا کر اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور کنگ میکرز کو یہ پیغام دیں کہ ایسا ٹوٹا پھوٹا اقتدار ہمیں نہیں چاہیے اگر حکمرانوں کا مشن اپنے اکائونٹس کے حجم بڑھانا ہی ہے تو پھر عوام کو اذیت دینے والے اقتدار کا حصہ بننا کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
بات اگر چینی کی کریں تو اس ملک میں 82شوگرملیں موجود ہیں جن میں 40کے مالکان وزراء ،سینیٹرز اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ہیں اور باقیوں کے بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ بذاتِ خود مالک ہیں۔ اگر یہ تمام شوگر ملیں مناسب طریقے سے آپریٹ کی جائیں تو یہ تمام شوگر ملیں سائوتھ ایشیا کی چینی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ برازیل جہاں شوگرملوں کی پرائیوٹائیزیشن کرکے اس کو پبلک سیکٹر میں دے دیا گیا ہے اور برازیل گنا پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج برازیل نہ صرف سائو تھ امریکہ و نارتھ امریکہ یورپ اور تقریباً دنیا بھر کی چینی کی ضروریات پوری کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قابل زراعت رقبہ میں اگر گنے کو مناسب طریقے سے کاشت کیا جائے تو ہماری شوگر ملیں 65سے 70لاکھ میٹرک ٹن چینی پیدا کر سکتی ہیں جبکہ ہم غیر محتاط طریقے سے بھی چینی کا استعمال کریں تو 35سے 40لاکھ میٹرک ٹن چینی ہماری ضرورت ہے جبکہ باقی ماندہ 40لاکھ میٹرک ٹن چینی سائوتھ ایشیا کی چینی کی ضرورتوں کو کافی حد تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن جب ہم خربوزے کے کھیت کی رکھوالی گیدڑ کے سپرد کر دیں گے تو حالات تو اس مثال کے مصداق ہوں گے کہ ’’چوری دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز‘‘۔ چینی کے بعد بات نکتہ چینی کی کی جائے تو وطن عزیز میں نقادوں اور نکتہ چینیوں کا بھی بحران زوروں پر ہے۔ اس ملک کے عوام کو چینی ،کھاد،آٹا، گندم، چاول، زرعی و انسانی ادویات ،بیج ،سیمنٹ اور پانی و بجلی کے بحرانوں کے ساتھ ساتھ محب وطن لوگوں کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ جو زیادہ بولتا ہے زیادہ لکھتا ہے زیادہ نکتہ چینی کرتا ہے وہ کسی نہ کسی موڑ پر اپنی قیمت وصول کرکے نکتہ چینیوں کی صف سے نکل کر بڑی بڑی کوٹھیوں اور لگژری گاڑیوں کے مالکان بن کر اشرافیہ کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ نکتہ چینی کے بحران کی ایک وجہ عوام اور دانشوروں کی بے حسی اور بے توجہی بھی ہے۔ زخم کچھ اس طرح ہمارے معاشرے کے جسم پر لگ چکے ہیں کہ اب زخموں کا علاج کرنا اور مرہم رکھنا اوران سے چھٹکارا پانے کا سوچنے کی بجائے زخموں کا چاٹنا ہماری روش بنتی جا رہی ہے۔ جہاں چینی کا بحران اس وقت قوم کے ذہنوں پر سوار ہے وہاں نکتہ چینی کا بحران بھی ہماری سوچوں اور ذہنوں کو کُند کر چکا ہے۔ وگرنہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ ایوب خان کے دورحکومت میں جب شب برات پر چینی صرف چار آنے مہنگی ہوئی تھی تو اس وقت نظریہ پاکستان کے کارکن جو ابھی بڑی تعداد میں جوان و حیات تھے۔ انہوں نے عوام کو تحریک دی اور آمر ایوب کو چار آنے مہنگی چینی لے ڈوبی۔قومیں اگر ساتھ دیں تو جس طرح چند سال پیشتر برطانیہ میں انڈوں کا بحران آیا وہاں کے ذخیرہ اندوزوں اور پولٹری انڈسٹری کے مالکان قیمتیں کم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو حکومت اور عوام کی اجتماعی سوچ نے سرمایہ داروں کی اس ہٹ دھرمی کے آگے بندھ باندھ دیئے اور عوام نے انڈوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ۔ ٹھیک اسی دوران برطانیہ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آیا ہوا تھا۔ صبح ہوٹل میں ناشتے کے موقع پر میزبانوں نے دیکھا کہ وفد کا کوئی بھی رکن انڈے سے بنی ڈشز نہیں کھا رہا تو انہوں نے پوچھا کہ آملیٹ تو برطانوی ناشتے کا اہم حصہ ہے آپ لوگ آملیٹ نہیں کھا رہے؟ تو برطانوی وفد نے یہ کہہ کر میزبانوں کو حیران کر دیا کہ چونکہ ہمارے ملک میں اس وقت عوام نے انڈوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے تو ہم سات سمندر پار بھی اس بائیکاٹ کا حصہ ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چینی کے بحران کے سدباب کے لیے تمام سرکاری دفاتر اور اداروں میں چینی اور چینی سے بنی اشیا وغیرہ پر پابندی لگا دی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف انقلابی ذہن کے آدمی ہیں کیا ہی اچھا ہوتا وہ بسکٹس اور کیک کے ساتھ ساتھ میٹھے مشروبات اور پنجاب بھر میں موجود ہزاروں بیکریوں کو بھی یہ احکامات صادر فرما ئیں کہ وہ میٹھی اشیاکی فروخت بند کردیںکہ جس کی وجہ سے اس ملک کے کروڑوں عوام ’’شوگر‘‘ کے مریض بن چکے اور اس ملک کا اربوں روپیہ شوگر کی ادویات کی مد میں ضائع ہو رہاہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں شوگربس اسی شخص کو نہیں جس نے ابھی تک میڈیکل چیک اپ نہیں کروایا ۔اب تو سرکاری دفاتر کے باہر یہ بورڈ چسپاں نظر آئیں گے کہ براہ مہربانی اپنے بسکٹس ساتھ لائیں یہاں صرف نمکین چائے سے ہی تواضع کی جاتی ہے۔ 65اور 71ء کی جنگوں کے بعد ہم نے اکثر سنا کہ فلاں جگہ سے بھارتی جاسوس گرفتار ہوا ہے۔ وجہ گرفتاری یہ بنی کہ موصوف جاسوس صاحب نے کسی کھوکھے پر چائے کے کپ کا آرڈر دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ 2روپے کا نمک بھی اس میں ڈال دیں (یاد رہے ان دنوں نمک12آنے کلو تھا) چینی کے بائیکاٹ کے بعد اب قوم ایک نئے متوقع بحران کی طرف بڑھے گی وہ ہوگا نمک کا بحران ۔اکنامکس کے اصولوں کے مطابق جس چیز کی طلب بڑھے گی وہ پہلے مہنگی پھر ناپید اور مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو جائے گی۔ نمک ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ چینی سے پرہیز شایدممکن ہے مگر نمک تو ہر ہنڈیا میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اب تو نمکین زیرہ بسکٹ، نمکین چائے، نمکین لسّی و دیگر نمکین مشروبات ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور تو اور ہم نے گائوں میں دیکھا کہ کسان بھینسوں کو چارہ نمک ملا کربھی ڈالتے ہیں۔ جبکہ ہمارے روحانی پیرصاحبان چھوٹی موٹی بیماریوں پر نمک’’ دم‘‘ کرکے دیتے ہیں ۔اب تو نمک میں آیوڈین کی آمیزش بھی ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے سالار اور مردِ صحافت جناب مجید نظامی صاحب سے ایک دفعہ گفتگو ہو رہی تھی تو میں نے انہیں کہا کہ نظامی صاحب آپ نے سالہا سال اپنے مؤقر اخبار میں افغان باقی کہسار باقی۔ پھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی کافی عزت بخشی اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی دوران نظری بندی ایسی تحریک چلائی کہ حکومت کو انہیں رہا کرنا پڑا ۔لیکن مذکورہ حضرات نے موقع ملتے ہی کوئی اور میڈیا گروپ جوائن کر لیا جس پر میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ آپ کے نمک میں آیوڈین کی کمی ہے آپ اپنے نمک میں آیوڈین ملا لیا کریں تاکہ نمک حلالی کی روایت برقرار رہ سکے۔ لگتا یوں ہے کہ اب اس قوم کو درپیش درجنوں بحرانوں کے بعد نمک کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑے گا مگر شاید یہ پہلا نمکین بحران ہوگا جو عوامی جذبات کے ساتھ مل کر اس ملک میں منافقانہ سیاست کرنے والے حکمرانوں کے زخموں پر نمک چھڑکے گا۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ چینی اور چینی کی دیگر مصنوعات پر پابندی کے ساتھ ساتھ میٹھی اور تمام پارٹیوں کی منافقانہ سیاست پر بھی پابندی کا اعلان کریں تاکہ عوام نام نہاد سیاست دانوں کی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں۔

ای پیپر دی نیشن