10اگست کے قریب جبکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے تمام مسلمان مغربی پنجاب کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔ میں شاید واحد مسلمان تھا جو الٹی طرف جا رہا تھا۔ تقریباً 12اگست کو میں کلکتہ پہنچا وہاں کیپٹن ملک گل شیر سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں دہلی GHQمیں اکٹھے تھے۔ اور اب دونوںبطور سٹاف کیپٹن ڈھاکہ جا رہے تھے۔ کلکتہ میں جناب سہروردی مسٹر گاندھی کے ساتھ موجود تھے۔ اس لئے بظاہر امن تھا۔ لیکن فضا پاکستان کے سخت خلاف تھی فورٹ ولیم میں فوجی ہیڈکوارٹر اور ڈپو تھے ان کو سپریم کمانڈر سے احکامات مل چکے تھے کہ ہمیں ڈھاکہ میں آرمی ہیڈ کوارٹر بنانے کے لئے تمام ضروری سامان ہتھیار گولہ بارود فوری طور پر دئیے جائیں ۔ وہاں سینئر افسر سب انگریز تھے لیکن جونئیر افسر اور ماتحت عملہ تقریباً سار ا ہی ہندو تھا۔ اس لئے ہمیں مسلسل انتظار کرایا جا رہا تھا۔ بالآخر کلکتہ میں موجود چند ایک یونٹوں کے مسلمان کمانڈروں نے از خود بلا اختیار اور بغیر حساب کتاب کئے ہمیں کچھ سامان اور اسلحہ دے دیا۔ ان میں کچھ کمان افسروں کے نام مجھے یاد ہیں ایک تو میجر بادشاہ حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے۔ دوسرے میجر حسین جنہیں عرف میں ”سٹفی حسین“ کہا جاتا تھا لکھنو سے تعلق رکھتے تھے۔ تیسرے کیپٹن محمود احمد خان جو گور داسپور کے رہنے والے تھے۔ اور بہار میں میری ہمسایہ یونٹ میں تھے۔ جشن آزادی ہم نے 15اگست کو کلکتہ ہی میں ہندوﺅں کے ساتھ منایا جس کا آغاز انہوں نے بندے ماترم کے بنگالی ترانے سے کیا اس کے چند روز بعد ہم لوگ ایک اسپیشل ٹرین سے ڈھاکہ روانہ ہو گئے۔ وہاں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں اسلئے ہر طرف افراتفری نظر آتی تھی تاہم تعجب اس بات پر ہوا کہ مشرقی پاکستان میں صدیوں بعد پہلا اسلامی فوجی ہیڈ کوارٹر بن رہا تھا۔ لیکن عوام کی طرف سے یا سرکاری طور پر ہماری قطعاً کوئی پذیرائی نہیں ہوئی بلکہ کسی نے نوٹس تک نہیں لیا۔ اثنائے سفر ایک گھاٹ پر سامان کی منتقلی ہوئی یعنی ہندوﺅں کے ریل ڈبوں سے سامان اُتار کر مسلمانوں کے ڈبوں میں رکھا گیا وہاں بنگال قلیوں نے ہمارا سامان اُٹھانے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ راقم نے خود اور کیپٹن گل شیر نے اورہمارے فوجیوںسے مل کر سامان ایک طرف سے اُتار کر دوسری طرف چڑھایا۔
جیسا کہ اُوپر لکھا جا چکا ہے ڈھاکہ میں دو بٹالین فوج تھی۔8پنجاب رجمنٹ کا کمانڈنگ افسر کرنل پیکارڈ اور 12فرنٹئیر فورس رجمنٹ کاکمانڈنگ افسر کرنل پیٹرسن تھا یعنی دونوں ہی کمانڈنگ آفیسرز انگریز تھے۔ یہ دونوں یونٹ ڈھاکہ سے کچھ فاصلے پر تیج گاﺅں کیمپ میں مقیم تھے۔ ان دونوں کے نمائندے ہمیں ڈھاکہ ریلوے سٹیشن سے امریکن ملٹری ہسپتال لے گئے یہ ایک بہت بڑی مربع عمارت تھی۔ جو کہ جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد سے خالی پڑی تھی۔ ہم نے وہاں دفاتر اور رہائشی کوارٹر قائم کر لئے بعد میں معلوم ہوا کہ 1906ءمیں تقسیم بنگال کے موقع پر یہ عمارت بطور گورنمنٹ ہاﺅس تعمیر ہوئی تھی لیکن فوراً بعد ہی 1911ءمیں جب ہندوﺅں کے واویلے نے اس مسلمان صوبے کو دوبارہ متحدہ بنگال میں شامل کر دیا تو اس میں گورنمنٹ کالج بنا دیا گیا۔ جہاں ڈان کے ایڈیٹر جناب الطاف حسین صاحب بھی پڑھاتے رہے۔ جنگ عظیم کے دوران اس میں امریکی فوجی ہسپتال قائم کیا گیا اور جنگ کے بعد یہ بلڈنگ خالی پڑی تھی لیکن نام پھر بھی امریکن ہسپتال عمارت تھا۔ اسلئے ہم نے اسے فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ کچھ عرصہ بعد جب ڈھاکہ میں ہائی کورٹ قائم کیا گیا تو ہم نے سامنے کی نصف بلڈنگ خالی کر دی۔ ڈھاکہ میں چونکہ صوبائی سیکرٹریٹ کے لئے کوئی موزوں بلڈنگ موجود نہ تھی اس لئے ایڈن گرلز کالج کی عمارت کو خالی کروا کے اس میں صوبائی دفاتر قائم کئے گئے۔ مشرقی پاکستان کے پہلے گورنر ایک انگریز آئی سی ایس افسر سرفریڈک بورن مقرر ہوئے یہ وہی ایف سی بورن تھے جو تحریک شہید گنج کے وقت لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور نہتے مسلمانوں پر گولی چلانے میں ان کا بھی نام آتا تھا۔ ڈھاکہ گورنمنٹ ہاﺅس پر ہم نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس لئے گورنر کوکمشنر کے مکان پر اتارا گیا اب سوال ان کے کھانے پینے کا پید ا ہوا ڈھاکہ میں اس وقت پاﺅ روٹی ناپید تھی(بہار بنگال میں انگریزی ڈبل روٹی کو پاﺅ روٹی کہتے ہیں) چنانچہ اس وقت فوڈ سیکرٹری این ایم خان جن سے میری کلکتہ کے زمانے سے دوستی تھی میرے پاس تشریف لائے اور گورنر کے لئے ملٹری بیکری سے ایک پاﺅ نڈ ڈبل روٹی روزانہ سپلائی کا انتظام کیا۔ اس وقت پورے ڈھاکہ میں کوئی ایسی دکان نہ تھی جہاں بیٹھ کر سوڈا واٹر یا چائے پی سکتے ۔ خواجہ صاحبان نے گول جستی چادروں کے بنے ہوئے ایک شیڈ میں ”ڈاینفا“ کے نام سے یہاں مٹھائی اور بیکری سٹور کھولا۔ لیکن چائے وغیرہ کا اس میں بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ ڈھاکہ ریلوے اسٹیشن میں پلیٹ فارم یا گیٹ قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اور ریلوے لائن شہر کے بیچو ں بیچ گزراکرتی تھی اس پر کہیں کہیں گیٹ ہاتھ رکشہ اور سائیکل رکشہ کی ٹریفک کو گھنٹوں روکے رکھتے ڈھاکہ پولیس کے پاس وردی تک نہ تھی۔ وہ گھر یلو لباس یعنی دھوتی یا تہبند اورگنجی یعنی بنیان میں ڈیو ٹی دیتے اور اکثر کی کمر کے ساتھ زنجیر کے بجائے رسی کی ہتھکڑی لپٹی ہوتی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ پولیس والے مغربی بنگال سے آئے ہیں اور ان کی وردیاں ہندوﺅں نے رکھوالی ہیں یہ سب کچھ بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ جن قارئین نے سقوط سے ذرا قبل ڈھاکہ دیکھا ہوان کو پاکستانی دور کی ترقی کا اندازہ ہو سکے۔ مجھے ڈھاکہ کی تحقیر مطلوب نہیں کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان سارے ہی اکثر یتی صوبوں میں پسماندہ تھے چنانچہ یہاں راولپنڈی میں مسلمانوں کی آبادی 90فیصد تھی لیکن دولت ، تجارت ، تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ 10فیصد بھی نہیں تھا حتیٰ کہ تقسیم سے قبل راولپنڈی میونسپلٹی کا پریذیڈنٹ تو ڈپٹی کمشنر ہی تھا لیکن اکثر وبیشتر وائس پریذیڈنٹ ہندو گزرے ہیں۔ (جاری)