مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر سرکریک‘ سیاچن اور دیگر مسائل پر مذاکرات بے معنی ہیں: حریت کانفرنس

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماﺅں نے کہا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان علاقائی تنازعہ نہیں، یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے، عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں، معاشی عالمگیریت، جمہوریت، افغانستان کی صورتحال اور بھارت کی اقتصادی ترقی کے عنصر کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات تاریک نظر نہیں آتے، پاکستان اور بھارت مذاکراتی عمل میں بنیادی فریق کشمیریوں کو شامل کریں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، بلال غنی لون، آغا حسن بڈگامی، عباس انصاری اور آغا حسین نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف سے کشمیری بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کی حریت کانفرنس نے ہمیشہ حمایت کی ہے تاہم کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر سرکریک، سیاچن اور دیگر مسائل مذاکرات بے معنی ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کی طرف سے ڈی ملٹرائزیشن، کالے قوانین کے خاتمے سمیت دیگر اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ کشمیریوں کو ریلیف مل سکے۔ پاکستان بھارت اور کشمیریوں کو ایک میز پر بیٹھنا چاہئے۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ وزیراعظم یا سیکرٹری کی سطح پر ایک دوسرے کے ملک کے دورے تنازعات کا حل نہیں ہیں، کشمیری سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں۔ پاکستان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت ہے ۔ کشمیری بندوق ترک کر کے اپنی جدوجہد آزادی کو پرامن راستے پر لائے۔ احتجاج جاری ہے، پاکستان اور بھارت کی قیادت کو مسئلہ کے حتمی حل کی طرف جانا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ ہمارے پاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں مسئلہ کشمیر کا بہترین حل موجود ہے اس پر عمل کرنے کے لئے روڈ میپ بھی موجود ہے لیکن ہم نے بھارت اور عالمی برادری سے کہا ہے کہ اگر تینوں فریق مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدگی سے بات چیت کریں تو تینوں کے لئے قابل قبول حل نکل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا سی بی ایمز کرتے وقت ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اقدامات مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکیں گے لیکن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور کالے قوانین کے نفاذ سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان سی بی ایمز پر ایک فی صد بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بلال غنی لون نے کہا کہ ہمیں عالمی سطح پر اپنی تحریک کو مقامی تحریک ثابت کرنا ہو گا۔ 2009ءسے 2011ءتک کشمیری عوام پرامن طور پر سڑکوں پر آئے مگر اس سے نہ پاکستان فائدہ اٹھا سکا اور نہ ہم عالمی برادری کو باور کرا سکے کہ یہ مقامی تحریک ہے۔ پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے برجستہ فارسی اشعار پڑھے اور کہا اب وقت آگیا ہے کہ عقل اور دماغ کی بجائے دل سے فیصلے کئے جائیں۔ عبدالغنی بھٹ نے کہا کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں معاشی نظام میں عالمگیریت، ایک دوسرے کی ضرورتوں میں معاونت، پاکستان اور بھارت میں جمہوری نظام حکومت، افغانستان کی صورتحال اور بھارت کی اقتصادی ترقی وہ بنیادی عنصر ہیں کہ جن کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات تاریک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں سلامتی، امن اور استحکام کیلئے کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی دو جوہری قوتیں فریق ہیں، وہ اسے ضرور حل کرینگی۔ امن اور تنازعات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہمیں امن چاہئے تو تنازعات کو حل کرنا ہو گا۔ مذاکرات کا یہ اصول ہے کہ اس میں لچک ہونی چاہئے، قربانی کا جذبہ ہونا چاہئے، کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے کچھ قربانیاں بھارت اور کچھ کشمیریوں کی طرف سے آنی چاہئیں۔ بلال غنی لون نے کہا کہ کشمیریوں میں نظریاتی اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے لیکن منزل سے کوئی انحراف نہیں کر سکتا۔ یہ کام کشمیریوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف ممکن نہیں تاہم پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو قریباً صوبہ کا درجہ دینے اور بھارت کی طرف سے لداخ پر موقف کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ان قراردادوں سے ہٹ کر بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ کشمیریوں میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن منزل آزادی ہے۔ عبدالغنی بھٹ نے کہا کہ کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت یا بندوق کے زور پر بھارت سے نہیں جیت سکتے تاہم ان کا یہ ایمان ہے کہ وہ بھارت سے شکست نہیں کھائیں گے۔ کشمیر کوئی مذہبی مسئلہ نہیں، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان، لداخ سمیت تمام کشمیری اکائیوں کو مل بیٹھ کر موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کر سکیں کے وہ کیا چاہتے ہیں۔ حریت کانفرنس کے رہنماﺅ ں نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کی جس میں مقبوضہ کشمیر پر تبادلہ خیالات کیا گیا۔ وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان میاں منظور احمد وٹو سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں ملاقات کی۔ ملاقات میںاصولی اتفاق ہوا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات اور تجارت کی حمایت کرتی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ منسلک رکھا جائے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بین المذاہب دوروں اور زائرین کی سہولت کیلئے طے شدہ طریقہ کار پر عمل درآمد کروایا جائے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف تجارت کو فروغ دیا جائے‘ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کو بامعنی اور جامع بنایا جائے اور کشمیری قیادت کو ان مذکرات میں شامل کیا جائے بھارت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو روکے اور انسانی وقار اور تقدس کو بحال کرے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف آمد و رفت کے لئے کشمیریوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات مہیا کی جائیں۔ آمد و رفت کے مزید راستے کھولے جائیں۔ میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے اور ان کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری بہن بھائی ایک زندہ قوم ہیں ان کا آزادانہ رائے شماری سے اپنے مستقبل کے فیصلہ کا موقف برحق اور اصولی ہے پاکستان ہر سطح پر کشمیریوں کے اصولی موقف کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے وفد کو بتایا کہ حال ہی میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات بھارت کیلئے مثال ہیں کہ وہ بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اسی طرح حق خودارادیت کا موقع دے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...