میاں شہباز شریف کا دیرپا امن کیلئے کشمیر، سیاچن اور پانی سمیت بنیادی تنازعات حل کرنے پر زور
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسائل حل کرنے کیلئے ایمانداری اور سنجیدگی سے کوشش کرنا ہے اور اس کیلئے باہم مذاکرات کرنا ہوں گے کیونکہ مسائل کے حل کے بغیر خطے میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ روز ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں کارکنان تحریک پاکستان کے اعترافِ خدمت کیلئے منعقدہ 24ویں سالانہ عطائے گولڈ میڈل تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ اگر آج پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو پھر خدانخواستہ بھارت پاکستان کے ساتھ زیادتی کرنے پر تُل جاتا، ہمارے نیوکلیئر پروگرام میں ہی ہماری بقا ہے۔ ہمیں من حیث القوم اپنے حالات اور معاملات درست کرنا ہوں گے۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ¿ بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ان کی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے سٹیریو ٹائپ گلے شکوے کئے جس پر میں نے انہیں کہا کہ گلے شکوے ہمیں بھی ہیں، 67 سال میں ہم نے جنگیں بھی لڑی ہیں مگر ان کے نتیجے میں ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا، اگر ہم نے باہمی طور پر پُرامن ہمسایوں کی طرح رہنا ہے تو یہ دونوں ملکوں کی قیادتوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے اپنے ملک میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ کرتے اور خطے میں دیرپا قیام امن کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے کہا کہ امن کے راستے میں چند بنیادی مسائل حائل ہیں جنہیں حل کیا جانا چاہئے، ان میں کشمیر، پانی کا مسئلہ، سیاچن جیسے مسائل شامل ہیں جنہیں زبانی کلامی نہیں دبایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اگر کوئی ایڈونچر ہُوا تو شاید ہی کوئی یہ بتانے کیلئے بچ پائے کہ کیا ہُوا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پڑوسی ممالک میں پُرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت امن و آشتی کی فضا کو یقینی اور مستحکم بنا کر ہی علاقائی امن و سلامتی اور اپنے اپنے ملک کے عوام کی ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تنازعہ پیدا ہونے دیں نہ کسی تنازعہ کو طول اختیار کرنے دیں اور کوئی تنازعہ موجود ہو تو اسے ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل بیٹھ کر طے کر لیا جائے۔ تقسیم ہند کے بعد اگر اسی جذبہ کے تحت بھارت کی لیڈر شپ قیام پاکستان کی حقیقت کو دل سے تسلیم کر لیتی اور پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اس کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات استوار کر کے اپنے اپنے عوام کی اقتصادی خوشحالی اور علاقائی استحکام کی راہ ہموار کر دی جاتی تو آج ہمارا خطہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اقوام عالم میں ایک مثالی خطہ بن چکا ہوتا مگر بدقسمتی سے بھارتی لیڈر شپ نے شروع دن سے ہی پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہ کیا اور اس کی سالمیت کے خلاف سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دئیے، اسی تناظر میں بھارت نے دانستہ طور پر کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا حالانکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم آبادی کی اکثریت ہونے کے ناطے کشمیریوں کی رائے سے ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا اور اس کی بنیاد پر ہی پاکستان کا وجود مکمل ہونا تھا۔ اسی پس منظر میں قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا جبکہ بھارتی لیڈران نے اسی تناظر میں کشمیر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کو استحکام کی منزل سے ہمکنار نہ ہونے دینے کی سازش کے تحت کشمیر کو متنازعہ بنا دیا اور پھر اپنے ہی پیدا کردہ اس تنازعہ کے حل کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا تاہم جب یو این جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد کے تحت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر میں استصواب کے انتظامات کی ہدایت کی تو بھارت نے نہ صرف اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا بلکہ اپنی مسلح افواج بھیج کر وادی¿ کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط جما لیا۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ بھارتی افواج نے حقِ خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ بھی توڑنا شروع کر دئیے اور پھر بھارتی آئین میں ترمیم کر کے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا گیا اور اس کی بنیاد پر بھارتی لیڈروں کی جانب سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کا راگ الاپا جانے لگا۔ بھارت کا اپنا پیدا کردہ یہی وہ بنیادی تنازعہ ہے جس نے آج تک دونوں ممالک کو امن و سکون سے نہیں رہنے دیا جبکہ تنازعہ کشمیر نے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین سرکریک، سیاچن اور پانی کے تنازعات کو بھی جنم دیا ہے اور کشمیر پر قبضہ کرنے کے حوالے سے خود بھارت کی نیت بھی یہی تھی کہ کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریاﺅں کا پانی روک کر اس کی زرخیز دھرتی کو بنجر بنا دیاجائے اور اس طرح اسے صومالیہ، ایتھوپیا جیسے قحط سالی کے حالات سے دوچار کر دیا جائے اور پھر نیم مُردہ، کمزور پاکستان کو اپنی منشا کے مطابق ہڑپ کر لیا جائے۔ بھارت اپنے ان عزائم میں تو اب تک کامیاب نہیں ہو سکا اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان کے دولخت ہونے کے باوجود پاکستان کا وجود آج بھی قائم ہے اور بھارت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ سانحہ¿ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا بیڑہ نہ اٹھایا جاتا تو بھارت موجودہ پاکستان کو بھی کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا۔ اس حوالے سے ملک کی جن جن قیادتوں نے بھی پاکستان کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے وہ سب لائق تحسین ہیں جبکہ موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے ہی اپنے سابقہ دورِ حکومت میں 28 مئی 1998ءکو چاغی کے میدان میں ایٹمی بٹن دبا کر پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بھارت کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کے ارتکاب کی تو جرا¿ت نہیں ہو سکی مگر اس نے اپنی سازشوں کے جال ضرور پھیلائے جس میں اس کا آبی دہشت گردی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو اتنا اُجاگر کیا کہ باہمی تنازعات کے حل کیلئے کسی بھی سطح پر ہونے والے باہمی مذاکرات کو کشمیر کا تذکرہ آتے ہی بھارت خود رعونت کے ساتھ ختم کرنے لگا اور ساتھ ہی پاکستان پر در اندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کی جانے لگی۔ گذشتہ ایک سال سے جاری سرحدی کشیدگی بھی اسی تناظر میں خود بھارت کی پیدا کردہ ہے جس کی روشنی میں بھارت سے مذاکرات کی میز پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کے معاملہ میں کسی پیشرفت کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ موجودہ بھارتی وزیراعظم متعدد مواقع پر کشمیر سمیت تمام ایشوز پر پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر عملاً ان سمیت بھارتی حکمران اور اپوزیشن کی کوئی قیادت مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کیلئے آمادہ نہیں بلکہ اس ایشو پر ہمیشہ پاکستان کے ساتھ آمادہ¿ جنگ رہتی ہے۔ اگر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد پر پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرنے پرآمادہ ہوتا تو اس کیلئے سابق جرنیلی آمر مشرف نے اپنے دور میں یکطرفہ طور پر کشمیر فارمولا پیش کر کے نادر موقع فراہم کیا تھا جس کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کو عملاً پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کرنے کی راہ نکالی گئی مگر بھارتی لیڈران اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے اور اُلٹا آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔
اس بھارتی سوچ اور رویے کی موجودگی میں تو کشمیر ہی نہیں پاکستان کی سالمیت کو بھی بھارت کی دستبرد میں دے کر ہی اس کے اطمینان کا اہتمام ہو سکتا ہے بصورت دیگر وہ خود پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کے درپے رہے گا۔چنانچہ اس بھارتی طرزِ عمل کی موجودگی میں اس کے ساتھ دوستی، تجارتی تعلقات اور علاقائی تعاون کی بیل کیسے منڈھے چڑھائی جا سکتی ہے کیونکہ اس کیلئے تو دوطرفہ کوششوں کا بروئے کار لایا جانا اور ساتھ ہی ساتھ خلوصِ نیت کا ہونا بھی ضروری ہے جس سے بھارتی لیڈر شپ آج بھی عاری نظر آتی ہے۔
ملک کی موجودہ حکمران قیادت جو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی بھی قیادت ہے، ملک میں اقتصادی استحکام اور عوام کی خوشحالی کی خاطر بھارت سے ہر صورت دوستانہ مراسم اور تجارتی تعلقات فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے اور وزیراعظم میاں نواز شریف تو ملک کے دیرینہ دشمن کے عزائم کا ادراک ہونے کے باوجود اس کی جانب یکطرفہ طور پر ہی دوستی کا ہاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے ان کی ہر کوشش اور ہر خواہش کا جواب پاکستان پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ اور سرحدی کشیدگی بڑھانے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی گذشتہ دنوں اپنے دورہ¿ بھارت کے دوران لدھیانہ میں بھارت کیلئے ایسے ہی خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا اور میاں نواز شریف کی دونوں ممالک میں ویزہ فری آمد و رفت کی تجویز کی بھی انہوں نے بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی تجویز پیش کر کے بالواسطہ تائید کی، اب انہوں نے ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان کی تقریب میں باور کرایا ہے کہ پاکستان بھارت کے مابین کشمیر، سیاچن اور پانی کے مسائل حل کئے بغیر دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں جبکہ ان کے بقول انہوں نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگن کو بھی یہی باور کرایا ہے تو پھر انہیں اور ان کے برادر بزرگ وزیراعظم پاکستان کو بھارت کیلئے یکطرفہ وارفتگی کی پالیسی یکسر ترک کر کے بھارت پر کشمیر، سیاچن اور پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے عالمی دباﺅ ڈلوانے کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ ملک کی موجودہ حکمران قیادتوں پر تو اس حوالے سے اور بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کی خالق جماعت کی قیادت بھی ان کے پاس ہے چنانچہ ملک کے تحفظ و استحکام کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے دیرینہ دشمن کے عزائم سے ہمہ وقت باخبر رہنا اور اس کے توڑ کی ٹھوس حکمتِ عملی طے کرنا ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔