”قائدِاعظمؒ کا نورِ بصیرت“

 18 دسمبر کو ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی طرف سے تحریکِ پاکستان کے 147 کارکنوں کے لئے عطائے گولڈ میڈل کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہُوئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بتایا کہ ” مَیں نے اپنے دورہ¿ بھارت کے دوران وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر واضح کر دیا ہے کہ کشمیر، سِیاچن اور پانی کے مسائل حل کئے بغیر خطّے میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا“۔ اس پر تحریکِ پاکستان کے مجاہد اور نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ”میاں شہباز شریف صاحب! مجھے آپ سے بڑی اُمیدیں تھیں۔ آپ اپنے آپ کو شہبازِ پاکستان بنائیں! قائدِاعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بھارت نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ کوئی انسان اپنی شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہم نے اپنا ایٹم بم پلیٹ میں سجائے رکھا تو کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا اور 15 سال بعد پاکستان ریگستان بن جائے گا۔ بھارت سے صاف صاف کہہ دیں کہ- لالہ جی! انسان کے بچّے بنو ورنہ ایٹم بم کے لئے تیار ہو جاﺅ!“مرزا غالب نے شاید بھارتی حکمرانوں کے بارے میں، بہت پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ....
” آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا“
بہرحال میاں شہباز شریف نے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید کی طرف سے ایوانِ قائدِاعظمؒ کی تعمیر کے لئے مزید تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔ تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل میاں فاروق الطاف نے ٹرسٹ کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ پتہ چلا کہ ایک ٹرسٹی اور تحریکِ پاکستان کے کارکن جناب جے اے زمان (مرحوم) نے ایوان سے ملحقہ جگہ پر تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ ایک خوبصورت مسجد 6 سال پہلے تعمیر کرائی تھی۔ اُس مسجد کا نام زمان مسجد ہے اور دوسرے ٹرسٹی ڈاکٹر نذیر قیصر نے ٹرسٹ کی لائبریری کے لئے 25 لاکھ روپے کا عطیہ دِیا تھا اور اب اُس لائبریری کا نام ڈاکٹر نذیر قیصر لائبریری ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے بانی ٹرسٹی ڈاکٹر مجید نظامی اور دوسرے ٹرسٹی صاحبان نے فیصلہ کِیا تھا کہ وہ اُس وقت تک گولڈ میڈل نہیں لیں گے جب تک تمام حق داروں کو گولڈ میڈل نہیں مِل جاتا۔ اب 24 سال بعد جب تمام ٹرسٹِیز اور غالب تعداد میں کارکنانِ گولڈ میڈل لے چکے ہیں تو تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے اپنے سالانہ اجلاس میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے درخواست کی کہ وہ گولڈ میڈل کا اعزاز قبول کر لیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب ٹرسٹ کے کئی سال تک ٹرسٹی اور چیئرمین رہے، اُن سے بھی یہی درخواست کی گئی۔
خاص بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی اور ڈاکٹر جاوید اقبال سمیت تحریکِ پاکستان کے بہت ہی نامور اور اُن سے کچھ کم نامور کارکنوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ کسی کو بھی چاندی یا کانسی کا میڈل نہیں دِیا گیا۔ ہر ایک کو گولڈ میڈل دِیا گیا۔ طبقاتی فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ اِس طرح غیر طبقاتی، نظریاتی اور روحانی قبیلے کے لوگ اور اُن کے ورثاءکی موجودگی میں محفل میں شہیدوں اور غازیوں کی یادوں کے چراغ روشن کئے جا رہے تھے۔ مَیں خوش قسمت ہوںکہ مَیں نے بھی اپنے والد صاحب رانا فضل چوہان (مرحوم) کا گولڈ میڈل وصول کیا۔ میاں شہباز شریف جس وقت میرے گلے میں گولڈ میڈل ڈال رہے تھے تو میری گردن فخر سے تن گئی لیکن مَیں آبدیدہ بھی ہو گیا۔ مَیں جناب مجید نظامی کے پاس پہنچا۔ انہوں نے مجھے مبارکباد دی اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن مَیں نے پہلے اُن کے گُھٹنوں کو چُھوا تو مَیں نے نظامی صاحب کی آنکھوں میں اپنے لئے شفقت کی روشنی دیکھی۔ میرے تین اور صحافی دوستوں روزنامہ ”جُرا¿ت“ کے چیف ایڈیٹر قاضی جمیل اطہر نے اپنے مرحوم چچا جناب قاضی ظہور اُلدّین سرہندی روزنامہ ”نئی بات“ کے گروپ ایڈیٹر جناب عطاالرحمن نے اپنے مرحوم والد جناب میاں غلام حسین اور ”نقطہ¿ نظر“ والے جناب مجیب الرحمن شامی نے اپنے مرحوم ماموں قاضی نیاز محمد کے گولڈ میڈلز وصول کئے۔ ثابت ہُوا کہ میرے والدِ صاحب اور میرے اِن دوستوں کے بزرگوں کا ”نقطہ¿ نظر“ ایک ہی تھا۔ اپنے اِن دوستوں کے ساتھ مجھے اُن کے بزرگوں کے حوالے سے یہ رشتہ بہت ہی اچھا لگا۔
میرے بھائیوں میں سے میرا پسندیدہ ترین چھوٹا بھائی سلیم چوہان اور اُس کا ہونہار بیٹا عزیر سلیم چوہان کارکنانِ تحریکِ پاکستان کی صف میں مجھے بیٹھے دیکھ کر کئی بار خوشی سے نہال اور آبدیدہ ہُوئے۔ گلاسکو (سکاٹ لینڈ) سے تشریف لائے 32 سال سے میرے دوست ”بابائے امن“ ملک غلام ربانی اعوان اور المرکز اسلامی لاہورکے ڈائریکٹر آپریشن مفتی تصدّق حسین تو مجھ پر ”تصدّق“ ہی ہو رہے تھے۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا کہ.... ”غریب وہ شخص ہے کہ جِس کا کوئی دوست نہیں“ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مَیں دوستوں کے معاملے میں بہت ہی امیر انسان ہوں۔ گولڈ میڈل مِلنے کے بعد مَیں نے سب سے پہلے ٹیلی فون پر، سعودی عرب میں مقیم اپنی بیٹی سائرہ قاسم مرزا کو مبارکباد دی۔ 8 سال قبل سائرہ نے اپنی مرحومہ والدہ نجمہ کی فرمائش پر بڑی محبت اور محنت سے اپنے دادا (میرے والد) کی بہت ہی خوبصورت "Oil Painting" بنائی تھی اور اُس کے بعد اپنی سب سے چھوٹی بہن رضیہ انعام چوہان کو جس سے میرے والد صاحب بہت محبت کرتے تھے۔ میرے دادا رانا عبدالرحیم خاں چوہان اپنے خاندان میں بڑے تھے اور میرے والد بھی۔ میں بھی اُن کا بڑا بیٹا ہوں۔ نیویارک میں میرا بڑا بیٹا ذوالفقار چوہان ایک بہت بڑے ادارے میں آئی ٹی کنسلٹنٹ ہے اور بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان چائلڈ سپیشلسٹ۔ دونوں ماشااللہ تہجد گُزار ہیں۔ ذوالفقار تو حج کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہے۔ اُن کے یہاں پہلا بیٹا (میرا سب سے بڑا پوتا) شاف علی چوہان پیدا ہُوا تو مَیں نے ایک پنجابی نظم لکِھی جِس کا عنوان تھا....
”میرا لہو امریکی ہویا“
لیکن 14 ِ اگست 2011ءکو جب مَیں نیو یارک کی "Nassau County" کے آئزن ہاور پارک میں مقامی انتظامیہ اور پاکستان کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے منائے جانے والے یومِ آزادی ¿ پاکستان کے موقع پر، ہزاروں پاکستانی نژاد امریکیوں کا جوش و خروش اور اپنے دونوں پوتوں، شاف علی چوہان اور عزم علی چوہان کو وقفوں وقفوں کے بعد اپنے ہم عمر اور بڑی عمر کے بچوں کے ساتھ مِل کر اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے ”پاکستان زندہ باد....قائدِاعظمؒ زندہ باد“ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا تو مَیں کئی بار آبدیدہ ہُوا۔ کل 21 دسمبر کو شاف علی کی سالگرہ ہے۔ میری اُس سے جب بھی ملاقات ہو گی مَیں اُس کے گلے میں اپنے والد کا گولڈ میڈل ڈال دوں گا۔ ”قائدِاعظمؒ کا نورِ بصیرت“ عام کرنے کے لئے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...