دسمبر گزرتا جا رہا ہے اور مَیں گزرے ہوئے بہت سے دسمبر یاد کرتی رہتی ہوں۔ دسمبر جیسے میری زندگی پر مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے میری آپو جی (والدہ) صبح صبح خبر دے رہی ہیں، رات برف گرتی رہی، سامنے والے پہاڑ کی چوٹی برف سے ڈھک چکی ہے۔ ہم اپنے اپنے لحافوں سے نکل کر پردے ہٹا کر کھڑکی کے دُھندلے شیشوں سے باہر اور سامنے اونچے پہاڑوں پر نظریں دوڑاتے ہیں، ہر طرف سفید برف نظر آ رہی ہے۔ بڑی بہنوں نے ٹین کی چھتوں سے پھسل کر گرتی ہوئی برف کی جھالروں کو کھڑکی کا پٹ کھول کر ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ برف کی لمبی سی قلفی۔ مگر ناشتہ کروا کر لانبے بوٹ، کوٹ، سکارف لپیٹ کر آپو نے مسجد جانے کا اشارہ کر دیا ہے۔ ہم دو چھوٹی بہنیں ایک بھائی اپنے ملازم کیساتھ سیپارے ہاتھوں میں پکڑے مسجد کی طرف چل پڑے ہیں۔ لوگ اپنی ٹین کی چھتوں سے برف سڑک پر پھینک رہے ہیں ۔بازار کی سڑک جگہ جگہ سے اونچا ڈھیر بنتی جا رہی ہے۔ واپس آتے ہیں تو گھر کے لوگ بڑے ہیٹروں میں دہکتے کوئلوں کے سامنے بیٹھے اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ ہمیں پھر گرم گرم چائے ملتی ہے۔
پھر اپنے ننہالی گائوں ڈسکہ کی کیچڑ بھری گلیاں اور بازار یاد آتے ہیں۔ سکول جاتے کیچڑ کی پھسلن، بچتے بچتے سکول آتے جاتے ہیں پھر سکول بند ہو جاتے ہیں۔ سردیوں کی چھٹیوں میں ہم کمروں میں بند کر دئیے جاتے ہیں، اندر بیٹھ کر ہوم ورک کرو، پڑھو۔ پھر ہمارے علاقے ہمارے گھروں میں بجلی آتی جاتی ہے۔ سڑکیں پکی ہو جاتی ہیں۔ ہم لوگ ہائی سکول کے بعد لاہور کا رُخ کرتے ہیں۔ بڑے بہن بھائی بیاہے جاتے ہیں۔ گھر کی رونق کم ہو جاتی ہے مگر دسمبر کی چھٹیوں میں بیاہی بہنیں بچے لیکر آ جاتی ہیں۔ زندگی میں کئی دور آنے لگتے ہیں بلکہ ملک میں کبھی سیاست زوروں پر ہوتی ہے، کبھی بے چینی۔ میں نے اپنی زندگی ہوسٹلوں میں گزاری اور نوائے وقت میں۔ اخبار میں دسمبر کی چھٹیاں نہیں ہوتی تھیں مگر سکولوں کالجوں کے ہوسٹل بند ہو جاتے تو مجھے کسی پرائیویٹ ہاسٹل میں پناہ مل جاتی۔ مزا یہ تھا کہ وہاں عموماً دفتروں، مختلف محکموں میں سروس کرنیوالی لڑکیاں ہوتیں۔ ہماری شامیں چائے پیتے، گپیں مارتے گزرتی۔ وہاں بہت سی نئی خبریں میں اُچک لیتی، میرے کالم کا موضوع بنتا، مجھے خبریں مل جاتیں۔ ایک ہوسٹل میں شبنم عابد علی میری ہمسائی تھی، میں نے اُس کے ساتھ کئی مشاعرے بھی دیکھے سُنے پھر وہ شبنم شکیل بن گئی۔ گھریلو خاتون اپنے بچوں میں مصروف ہو گئی اور ہماری فون پر بات چیت چلتی رہی مگر میری بڑی بہنوں کی طرح وہ بھی جلدی اللہ کے پاس چلی گئی۔
ہوسٹل میں ہم سب محکموں کی لڑکیاں کہا کرتی تھیں کہ خواتین نے کیا ترقی کی ہے۔ بحث دلچسپ ہوتی کیونکہ ہمارے ساتھ سوشل ویلفیئر کے محکمہ، بنک افسر، کالجوں کی پروفیسرز، ڈاکٹر، ریڈیو ٹی وی والی وکالت کرتی لڑکیاں ہوتیں اور وہ خواتین کی ملازمت اور سروس کی حامی ہوتیں۔ مجھے لگتا اب خواتین کی سوشل سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور دنیا وسیع ہو رہی ہے۔ اخبارات میں خواتین کیلئے صفحات بڑھا دئیے گئے ہیں، کچھ رسائل اور اخبارات خصوصی طور پر خواتین کیلئے شائع ہونے لگے۔ تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں ویسے تقریبات وہی تھیں۔ مباحثے، ڈیبیٹ، خانہ داری، مینا بازار مگر تصاویر زیادہ ہونے لگیں۔ مجھے لگتا خواتین سمٹ رہی ہیں اور تصاویر باقی رہ جائینگی۔ یوں تو گزشتہ صدی سے عورت کی آواز ادب اور سیاست میں گونجنے لگی تھی …؎
بولیں اماں محمد علی کی
بیٹا جان خلافت پہ دیدو
مگر اسی آواز میں ماں کی ممتا بھی تھی۔ عورت کا وقار اور حکم تھا۔ سیاست میں مس فاطمہ جناح بھی آئیں، بیگم آ باد احمد بھی، بیگم شاہنواز، شائستہ سہروردی، حجاب امتیاز علی مگر سب نے بہت وقار کیساتھ اپنا اپنا حصہ نبھایا، اپنے گھر بھی بسائے، اولاد کی تربیت بھی کی مگر اب …!
مجھے پھر دسمبر کی یاد آ گئی ہے۔ یہی دن تھے، مجھے خواتین کے کسی مینا بازار کو دیکھنے نکلنا تھا کہ خبر آ گئی سقوط ڈھاکہ --- میں گیلی آنکھوں سے کشور ناہید کی طرف پہنچی جو اپنے آفس کے ٹیبل کے سامنے کرسی پر دلگیر بیٹھی تھی، کوئی آفس ورک نہیں، ہم دونوں کے پاس آنسو تھے۔ پھر ہم نے دو تین بڑے کاغذوں کے بینر بنوائے اور چیرنگ کراس پر آ گئیں۔ باقی خواتین کو بذریعہ فون اطلاع کر دی تھی۔ ہم چند لڑکیوں کے پاس سب سے پہلے آنیوالے بزرگ صحافی ’’م۔ش‘‘ تھے، انہوں نے بات نہیں کی مگر انکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔
میرا پاکستان ‘ یہ کس نے دھوکہ دیا ہے …
یہ سازش ہے
اُن کی آواز کانپ رہی تھی۔ پھر آنسوئوں نے اُن کی آواز بند کر دی۔ کشور کا بھائی۔ میرا چھوٹا بھائی زخمی تھا کسی سی ایم ایچ میں تھا۔ م ش کے بھائی بھی فوجی تھے، اب میرے بہت سے عزیز جو آرمی اور سویلین آفیسر ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں تھے۔ چیئرنگ کراس میں جیسے ایک جلوس بن گیا۔ سقوط ڈھاکہ کیلئے ہماری یہ پہلی آوازیں تھیں جو بعد میں سارے پاکستان میں گونجنے لگیں، جگہ جگہ جلسے ہونے لگے، بہت دعائوں کے بعد ’’جنگی قیدیوں‘‘ کے خطوط آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں ڈاک خانہ میں خطوط دیکھتی رہتی۔ بھائی کا خط آیا تو میں اس ڈاکخانہ والوں کی اجازت سے وہاں سے لے کر ملتان ماں کے پاس پہنچی جو داماد کے محاذ پر ہونے کی وجہ سے بیٹی اور بچوں کے پاس گئی ہوئی تھیں۔ اسی طرح ایک بہنوئی کا خط لے کر ایبٹ آباد گئی، یہ ان کی زندگی اور ہونے کی نشانیاں تھیں۔ خاندانوں نے یہ نشانیاں سینے سے لگائیں اور یہ کٹھن برس گزرا۔
پھر عجیب باتیں سُننے میں آنے لگیں۔ بیچارے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو انکی اپنی ضرورت کہا جانے لگا۔ بھارتی فوجیوں کی زیادتیاں درگزر کی جانے لگیں اور قصور معاف کئے جانے لگے۔ بنگلہ دیش میں تو آج بھی کچھ لوگ پاکستان کے حامیوں کو پھانسی دیکر گولی مار کر خوش ہوتے ہیں۔سیاست بھی بڑی ظالم ہوتی ہے۔ مگر ہماری خواتین نے ماشاء اللہ بہت ترقی کر لی ہے۔ اب میرا فیبلوس کالج کی پرنسپل شپ سے ریٹائر ہو کر خاتون مستحب کی کرسی پر بیٹھ گئی ہیں۔ اب دسمبر میں عمران خان نیا پاکستان بنانے کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے ان لوگوں سے کہوں اب ’’نیا پاکستان‘‘ کا کونسا حصہ علیحدہ کر کے پاکستان کو لنگڑا لولا بنانے کی سوچ رہے ہیں۔ہمیں ہمارا پرانا اکلوتا پاکستان چاہئے جو ہمیں قائداعظم نے دیا تھا ہم اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر پاکستان میں آ بسے تھے، ہم نے اسکے بنانے بسانے میں اپنی اپنی زندگی میں بہت محنت کی ہے۔ پاکستان کی جڑوں کو مضبوط بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ہمیں ہمارا خوشحال، سبز، ہنسا بستا پاکستان چاہئے۔ نئے پاکستان کی نہیں، صرف پاکستان کی ضرورت ہے۔