”افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا استعفیٰ ایک اہم پیشرفت“

Dec 20, 2015

خالد بیگ

اگست 2015ءمیں اسلام آباد کے نواحی علاقے روات سے دولت خان، قاسم اور حضرت علی نامی تین افغان باشندے گرفتار کئے گئے۔ تینوں افراد ”را“ کیلئے پاکستان میں بطور آپریٹر خدمات سرانجام دے رہے تھے انہیں کے انکشاف پر سکیورٹی اداروں نے نائین/ فور سے عبدالحمید نامی افغان کو اسکے ساتھی سمیت گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (دی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی) کا ملازم اور اسلام آباد میں افغان انٹیلی جنس کا مقامی ذمہ دار ہے۔ روات سے پکڑے جانےوالے تینوں افغان اسی کی نگرانی میں کام کر رہے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی پشت پناہی پر بھارتی خفیہ ادارے ”را“ و افغان این ڈی ایس کا باہمی اشتراک ایسے وقت میں سامنے آیا جب افغانستان اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین اشتراک عمل کےلئے 15 مئی 2015ءکو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ہونےوالے معاہدے پر این ڈی ایس کے سربراہ میجر جنرل رحمت اللہ نبیل کی مخالفت کی بدولت پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں اچانک پیدا ہونےوالی سردمہری پر سب حیران تھے۔

تاہم یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب پاکستان میں دہشتگردی کے فروغ میں را اور این ڈی ایس کا اشتراک سامنے آیا ہو۔ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے عالمی تجزیہ کار بخوبی آگاہ تھے کہ بھارتی را صرف سندھ (کراچی) میں تنہا آپریٹ کرتی ہے باقی بلوچستان، خیبر پختونخواہ پنجاب اور قبائلی علاقوں میں را این ڈی ایس کو ساتھ ملا کر کام کرتی ہے اور افغانستان کو پاکستان کےخلاف بھارت سے باہر دوسرے فرنٹ کے طور پر استعمال کرنے کا انکشاف تو امریکہ کے سابق ڈیفنس سیکرٹری چک ہیگل بھی 26 فروری 2013ءکو اوکلوہامہ کی کیمرون یونیورسٹی میں افغانستان کی صورت حال پر اپنے تاریخی خطاب کے دوران کر چکے تھے جس پر بھارت نے بجائے احتجاج یا کسی بھی طرح کا ردعمل ظاہر کرنے کے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی کیونکہ بھارت کے پاکستان کےخلاف تمام تر پروپیگنڈے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے پاکستان پر افغانستان میں دہشتگردوں کی مدد و حمایت جیسے الزامات کے باوجود چک ہیگل کے بیان پر احتجاج کا مطلب ایک ایسا پنڈورا باکس کھولنا تھا جس سے بھارت کی طرف سے براستہ افغانستان بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپلکن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کو نقد رقوم، اسلحہ و گولہ بارود اور دہشتگردی کی تربیت فراہم کرنے جیسے راز عالمی میڈیا میں زیر بحث آتے۔ دنیا کو معلوم ہوتا کہ بھارت افغان خفیہ ادارے کو پاکستان میں دہشتگردی کیلئے کس طرح استعمال کر رہا ہے۔
گزشتہ برس 16 دسمبر کو دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے پورا منظر نامہ ہی تبدیل کر دیا۔ اب ملک میں دہشتگردوں کے سہولت کاروں، انہیں مالی معاونت فراہم کرنیوالے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے علاوہ دہشت گردوں کے بیرونی سرپرستوں کو منظر عام پر لا کر جنوبی ایشیاءمیں امن اور پاکستان کے حقیقی دشمن کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا فیصلہ ہوا تو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان کو ہمراہ لے کر فوری طور پر کابل پہنچے۔ 16 دسمبر کو پشاور میں حملے کےلئے افغانستان میں کی جانےوالی منصوبہ بندی اور بیس پر حملے کی براہ راست نگرانی کے ناقابل تردید ثبوت افغان صدر اور وہاں تعینات امریکی و نیٹو فورس کے کمانڈرز کے سامنے رکھ دیئے۔ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے یا اس کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ افغان صدر نے اسکی حامی تو بھر لی لیکن وہ افغان خفیہ ادارے کے سربراہ رحمت اللہ نبیل اور بھارت کے افغانستان میں مضبوط رابطوں کے ہاتھوں بے بس ہونے کی بناءپر اپنے ہی ملک میں اپنے صدارتی احکامات پر عمل درآمد کرانے میں بری طرح ناکام رہے۔ میجر جنرل رحمت اللہ نبیل کی پاکستان دشمنی افغانستان میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسی طرح افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس یا قبل ازیںخاد کی تاریخ بھی بھارت کے ہاتھوں پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ 1980ءکی دہائی میں بھارتی را اور سوویت کے جی بی خاد کو پاکستان میں بم دھماکوں کیلئے معاون کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ ابھی بھی بظاہر این ڈی ایس افغان صدر کے کنٹرول میں ہے تاہم اس ادارے کی حقیقی باگ دوڑ عبداللہ عبداللہ کے ہاتھ میں ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کو ہمیشہ سے دوسرے ”فرنٹ“ کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ جس کے توڑ کیلئے پاکستان کی طرف سے کی جانیوالی کوششوں کو سب سے زیادہ پاکستان کے اندر سے تنقید کا سامنا رہا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسیوں کے ناقد وہ طبقات ہیں جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر تو کمر بستہ رہے لیکن انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے مظالم کی مذمت کرنا آج تک گوارا نہیں کی۔ مگر خطے کی بدلتی صورت حال، چین و روس کی افغانستان میں قیام امن کیلئے بڑھتی ہوئی دلچسپی عالمی سطح پر معاشی و سیاسی میدان میں امریکہ اور اسکے اتحادی مغربی ممالک کو چین و روس کی طرف سے درپیش چیلنج کے بعد شاید اب بھارت کےلئے افغانستان کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنا ممکن آسان نہ ہو جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی اہمیت کو تمام بڑی قوتوں نے آخرکار تسلیم کر لیا ہے جسکے بعد شاید بھارت نواز میجر جنرل رحمت اللہ نبیل کو این ڈی ایس کی سربراہی سے ہٹایا جانا ضروری ہو گیا تھا۔ رحمت اللہ نبیل نے استعفیٰ دیا تو اسے قبول کرنے میں افغان صدر اشرف غنی نے دیر نہیں لگائی۔ اشرف غنی کی طرف سے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان سے دوستی کیلئے کی جانے والی کوششوں کو این ڈی ایس نے رحمت اللہ نبیل کی سربراہی میں کس طرح ناکام بنایا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن مستعفی ہونے کیلئے رحمت اللہ نبیل نے افغان صدر اشرف غنی کو جو خط لکھا ہے اسکی مختصر تحریر ہی میں پاک افغانستان تعلقات میں کشیدگی کی ساری کہانی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں بھارت، سابق صدر حامدی کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے اہم دست راست رحمت اللہ نبیل کی این ڈی ایس سے رخصتی کو خطے میں قیام امن کیلئے دفاعی تجزیہ کار ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

مزیدخبریں