عبدالستارایدھی....قوم دعا گو ہے

نامورسماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ انکے بیٹے فیصل ایدھی نے عوام سے انکی صحت کیلئے دعاﺅوں کی خصوصی درخواست کی ہے۔وہ کئی سالوں سے گردے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ عبدالستار ایدھی محض ایک شخص ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔کچھ عرصے پہلے میں نے کراچی جا کر ٹیلی ویژن کیلئے ان کا خصوصی انٹر ویو ریکارڈ کیا تو ان کی شخصیت اور خدمات کے حیران کن پہلو سامنے آئے۔ ایدھی فاﺅنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی نے پاکستان میں رفاع عامہ کے کاموں کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ ایسا مرتبہ ابھی تک کوئی دوسرا پاکستانی حاصل نہ کر سکا ہے۔ ہمہ وقت متحرک شخصیت ہردم انسانیت کی مدد کیلئے تیار۔ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ایدھی تو سب کے پاس پہنچتا رہا لیکن کوئی مقتدر شخصیت اس کی مزاج پرُسی کو ان کے گھر تک نہ گئی۔ ایدھی کو اپنے علاج کیلئے کسی سے مدد کی ضرورت نہیں لیکن وہ عیادت کیلئے آنے والوں کو دعائیں ضرور دیتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کا خاندان قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے کراچی آیا۔ ایدھی صاحب گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانیت کی خدمت کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے 73ملکوں میں ان کا فلاحی نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ایدھی صاحب کو حکومت پاکستان نے نوبل امن انعام کیلئے بھی نامزد کیا ۔انہیں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز بھی عطا کیا۔ اب تک انہیں275سے زائد ملکی اوربین الااقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ایدھی صاحب کو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ انسانیت کی خدمات پر انہیں ڈاکٹر یٹ کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے رفاعی کام کا آغاز اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد شروع کیا۔ آپکی والدہ محترمہ فالج اور شوگر کی مریضہ تھیں۔عبدالستار ایدھی نے مقدور بھر کوشش کی کہ اپنی والدہ کا علاج کروا سکیں لیکن وسائل اور حالات ساز گار نہ تھے ۔ انکی رحلت کے بعد ایدھی صاحب نے اپنی زندگی انسانیت کیلئے وقف کرنے کا عزم کیا۔عبدالستار ایدھی نے زندگی کے مصائب، مشکلات اور پریشانیوں کا حل خدمت خلق میں اس طرح ڈھونڈا کہ لوگوں کو حیران کر دیا۔ 1951 میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے پانچ ہزار روپے کی ادویات سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بینچ پر ہی سو جاتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔
1957 میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں یہ ڈسپنسری تھی اس عمارت میں زچگی کیلئے سینٹر اور نرسوں کی تربیت کیلئے بھی سکول کھول لیا،یہاں ہی سے ایدھی فاو¿نڈیشن کا آغاز ہوا ۔ لاوارث لاشوں کی تدفین کا کام بھی ایدھی فاﺅنڈیشن انجام دیتی ہے۔ایدھی فاﺅنڈیشن نے ملک کے کئی شہروں میں عوامی کچن کے نام سے غریب اور نا دار افراد کیلئے مفت خوراک کا اہتمام بھی کیا ہے۔ ایدھی فاو¿نڈیشن نے کلینک، زچگی ،ذہنی امراض میں مبتلا افراد کیلئے پاگل خانہ ، معذوروں کیلئے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ لا وارث بچوں کیلئے شہر میں کئی جھولے لگائے گئے۔ لوگ لاوارث بچے ان جھولوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ان بچوں کی کفالت ایدھی فاﺅنڈیشن کرتی ہے ایدھی فاﺅنڈیشن میں ان کیلئے خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام ہے۔ لاوارث بچوں اور یتیم افراد کی کفالت کے فاﺅنڈیشن نے "اپنا گھر" کے نام سے یہ منصوبہ کئی دہائیوں قبل شروع کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کئی لاکھ لاواث بچے اور بے گھر افراد"اپنا گھر" میں رہ چکے ہیں۔ایدھی فاﺅنڈیشن کے پاس اس خطے کا سب سے بڑا ایمبولینس فلیٹ بھی ہے۔ 1997گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایدھی ایمبولینس سروس کو کسی بھی نجی ادارے کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قرار دیا گیا ہے۔ جدید اطلاعاتی نظام سے مزین یہ ایمبولینس فلیٹ ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایدھی فاﺅنڈیشن کے پاس ائرایمبولینس فلیٹ بھی ہے۔ ائیر ایمبو لینس فلیٹ انسانی اعضاءاور خون کی بوتلوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک منتقل کرنے میں بڑامعاون ہے۔
ایدھی فاﺅنڈیشن کے تمام پراجیکٹس مخیر افراد اور عوام کے عطیات اور زکوة کی رقم سے چلائے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی حکومت اور مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے۔ انکے نظام میں کبھی کریشن یا خرد برد کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔عطیات، صدقات کی رقم کا باقاعدہ حساب رکھاجاتا ہے اور اس مد میں رقم دینے والے افراد جب چائیں اس کی تفصیل حاصل کر سکتے ہیں۔ایدھی صاحب کو بعض اوقات حیران کن صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔بلوچستان میں سفر کے دوران انہیں ڈاکوﺅں نے گھیر لیا۔ ڈاکوﺅں کو جب پتہ چلا کہ یہ عبد الستار ایدھی ہیں تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ عزت و تکریم دی بلکہ معذرت کرتے ہوئے دو کروڑ روپے کا عطیہ بھی پیش کیا۔ ایدھی صاحب کو پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں ایک بے لوث اور محترم شخص کے طور پر عزت حاصل ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، ایدھی فاو¿نڈیشن کا بجٹ کروڑ ہا روپے کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپکی کون سی خواہش ایسی ہے جسے پورا کرنے کی تمنا ابھی باقی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔انکی اس خواہش کی تکمیل پاکستانی عوام کو آسان اور بہترین طبی سہولت فراہم کرنے میں بڑی معاون ہو گی۔ مخیر حضرات، درد مند پاکستانی اور مخلص حکومتی حکام کو ایدھی صاحب کی جانب ان دنوںخصوصی توجہ دینی چاہئیے۔ اللہ تعالیٰ ان پر خصوصی کرم فرمائیں اور صحت کاملہ عطا کریں۔ آمین

ای پیپر دی نیشن