چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!

جنوبی پنجاب جیسے ایک ضلع میں تعینات ایک انقلابی پولیس آفیسر کو اُسکا ایک جاگیردار دوست پولیس آفیسر فون کرکے کسی بڑے جاگیردار کی سفارش کرتا ہے جسے ایک کمیں کے بچے کے ہاتھوں اسکی مکئی چوری کرنے پر انصاف نہیں مل رہا - انقلابی پولیس آفیسر نے مبینہ مظلوم جاگیردار کوداد رسی کیلئے بلایا جس پر متذکرہ جاگیردار نے بتلایا کہ اسکے ایک کمیں مزارعہ کے طالب علم بیٹے نے اسکی مکئی چوری کی ہے لیکن ماتحت افسر نے ملزم کو پکڑ کر رہا کر دیا ہے جس پر آفیسر نے ماتحت افسر کو موقع پر بلا کر وضاحت لی۔ماتحت آفیسر نے بتلایا کہ جاگیردار صاحب کے ملزم طالب علم کو بلایا گیا تھا جس نے بیان کیا اس نے بھوک مٹانے کیلئے محض ایک مکئی کا سٹہ توڑا تھا اور چوہدری صاحب کے ناراض ہونے پر معافی بھی مانگی تھی جس پر چوہدری صاحب کو بتلایا گیا کہ ایک سٹہ توڑنے پرمقدمہ قائم نہیں ہوسکتا لیکن چوہدری صاحب بضد تھے کہ کمیں کا یہ بچہ گائوں میں میرے سامنے اکڑ کر چلتا ہے اسکو مزہ چکھانا ہے- چوہدری صاحب کی تسلی کیلئے ہمارے ایک کانسٹیبل نے میرے منع کرنے کے باوجود بچے کو چھِتر بھی لگا دیئے اور ہم کیا کر سکتے ہیں - انقلابی افسر کا اندر سے خون کھولنا شروع ہوگیا لیکن بظاہر چوہدری صاحب کا ہمدرد ظاہر کرتے ہوئے ظلم کی اصل وجہ جاننا چاہی جس پر چوہدری نے افسر سے گزارش کی کہ چونکہ وہ بھی انہیں کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لہذا وہ کمیوں کی نفسیات کوبخوبی سمجھ سکتے ہیںکہ انہیں کیسے قابو رکھنا ہے- کمیںکے اس بچے کو اپنی تعلیم پہ بڑامان ہے کہتا ہے افسر بنوں گا- آپ ہی بتائیں اگر یہ لوگ افسر بن گئے تو یہ ہمارے ہم پلہ کھڑے ہونگے اور ہمیں سلام کون کرے گا- 

افسر نے دادا رسی کیلئے چودھری کو تشریف رکھنے کیلئے کہا اور ساتھ ہی پولیس وین متذکرہ کمیں بچے کو لے کر آنے کیلئے روانہ کی۔ بچہ پولیس دیکھ کر بھاگ نکلا ساتھ ہی کسی معزز شخص کا افسر کو فون آیا کہ بچے پر پہلے ہی پولیس نے زیادتی کی ہے جو شاید انکے علم میں نہیں ہے جس پر آفیسر نے بتلایا کہ بچے کو چودھری کی نہیں بلکہ اس بچے کی داد رسی کیلئے بلوایا ہے۔ بچے کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ طبی معائنہ سے تشدد کے نشانات ثابت ہو گئے۔ بوتل پیتے چودھری کو کُرسی سے اٹھا کر حوالات میں بند کیا گیا تشدد کرنیوالے کانسٹیبل پر پرچہ دے کر گرفتار کر لیا گیا اور ماتحت افسر کو معطل کرکے انضباطی کارروائی کی گئی۔ افسر کے جاگیردار سفارشی افسر اور دیگر افسران نے گِلاکیا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ انہیں چھتر مار لئے جاتے تاکہ محکمہ بدنام نہ ہوتا۔
جناب والا! سانحہ پشاور نے قوم کو یکجا کر دیا۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو سلام کہ انہوں نے دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ لیکن ان مائوں کے کلیجے کو ٹھنڈک کیسے پہنچے جو میڈیا پر بلکتی نظر آئیں کہ انہیں انصاف تب ملتا جب ان دہشت گردوں کو چوک یا اسی اسکول میں پھانسی دی جاتی۔ قومی یکجہتی کیلئے ان کے بچوں کو ہی کیوں چنا گیا۔ اسکے ماسٹر مائنڈ کو سرِعام ننگا کیا جاتا اور نشانِ عبرت بنایا جاتا۔ کیا جب بھی یکجہتی درکار ہوگی معصوم طالب علم بچوں کی لاشوں پر مائوں کی نوحہ کنائی کیا لازم ہوگی یا اربابِ اختیار کو لاشے گرنے سے پہلے مسئلہ کی تہہ تک پہنچتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
طالبان یا دشمن کیساتھ کئی معاہدے ہوئے جو سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ شام کے وقت صلح کے نتیجے میں گلوگیر ہوتے شکرانے کے نوافل ادا ہوئے مٹھایاں تقسیم ہوئیں، ایک دوسرے کے خون معاف کرنے اور دیرپا امن کے عہد و پیمان ہوئے لیکن اگلی ہی صبح ایک مدرسہ پر فجر کے وقت ڈرون حملہ ہوا اور 80 کے لگ بھگ معصوم طالب علم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا‘ مائیں تڑپ اٹھیں۔
نہایت خوش آئند بات ہے کہ آج ہم چٹان کی طرح مضبوط سب ایک ہیں لیکن کیا آج ہمارا کام مکمل ہوگیا۔ آج بھی بلوچستان‘ خیبر پی کے‘ جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ اور دیہات میں بچوں کی اکثریت سکول کا منہ نہیں دیکھ سکتی۔ سردار‘ وڈیرہ‘ سائیں‘ خاں کسی کمیں کو مکئی کا سٹہ چوری کرنے کے الزام پر ریاستی مشینری کا آہنی ہاتھ استعمال کرتے ہوئے تعلیم جس کا دوسرا نام تقدیر ہے سے فائدہ لیتے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے ہم پلہ ہوکر اسکے سر چڑھ ناچے گا۔ وڈیرے اور جاگیردار سے نجات حاصل کردہ یہ مفرور بچہ بالآخر مدرسہ کی دال روٹی حاصل کرکے پلتے اور متشدد رویہ اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تعلیم میں رکائوٹ ڈالنے کے عمل کو فوجداری جرم قرار دینا اور بجٹ میں تعلیم کیلئے خاطر خواہ اضافہ ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان کی تعلیم کے ذریعے تقدیر بدلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ابھی انقلابی پولیس افسر کی طرح اپنے جاگیردار پولیس افسر کی سفارش کو ٹھکرانا ہو گا۔ آرام کرنے سے پہلے وعدے نبھانے ہونگے۔ ابھی مدرسوں‘ دیہات‘ فقیر‘ اونٹ دوڑ اور جبری مشقت میں پڑے بچوں کو تعلیم کے زیور سے باشعور بنانا ہو گا اور بقول فیض چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...