ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گورنمنٹ ہائی سکول گوجرانوالہ میں ضلع بھر کے سکولوں کے طلباءکے درمیان ”یوم اقبال“ کے حوالے سے ایک تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ 1980کی دہائی کا وسط تھا۔ شہر میں دونوں بڑے کالجز یعنی گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے کچھ ذہین مستعد اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار طلباءنے ذات پات، برادری مسلک اور اونچ نیچ سے ماورا ہو کر ایک بڑی تحریک منظم کی "ھسپاہ" نام تھا اس تنظیم کا ۔ جو " ہم سب پاکستانی ہیں " کا مخفف تھا۔ جس کا ہر رکن اپنے نام کے ساتھ خان رانا ، چوہدری، بٹ، قادری، یامیاں وغیرہ کی بجائے " پاکستانی " لکھتا تھا۔ سجاد انور پاکستانی اسکے کرتا دھرتا تھے۔ " ھسپاہ " نے ہی اس تقریری مقابلے کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی مدعو کیاکہ بطور جج میں اس مقابلے میں اول ، دوئم۔ سوئم آنے والوں کے نتائج مرتب کروں۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری صاحب کی صدارت تھی اور ایک مرد بے نیاز وبے غرض خلیفہ امام دین بقا اس کے مہمان خصوصی تھے۔ خلیفہ صاحب آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکرٹری رہ چکے تھے ۔ اور حکیم صاحب تحریک پاکستان سے لےکر قیام پاکستان اور پھر زندگی بھرایک زندہ وتابندہ حقیقت رہے۔ اس سے قبل حکیم صاحب سے کبھی ملاقات نہیںہوئی تھی اگرچہ ان سے بذریعہ ہفت روزہ " چٹان" ہر ہفتے ملاقات ہو جاتی تھی جس میں انکے فکرانگیز مضامین شائع ہوتے تھے۔ منتظمین کی رائے تھی کہ پروگرام حسب معمول ایک گھنٹہ دیر سے شروع کیاجائے تاکہ زیادہ سے زیادہ حاضرین جمع ہو سکیں۔ ہم سب حکیم صاحب کوہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے سے لینے گئے ۔ ہم نے پروگرام ذرا دیر سے شروع کرنے کی اجازت چاہی مگر خلیفہ صاحب اور حکیم صاحب نے کوئی عذر قبول نہ کیا او ر وقت پر پروگرام شروع کرنے کی ہدایت کی اور بتایا کہ حضرت قائداعظم کا یہی اصول تھا۔ پروگرام کے بعد شہر کے کچھ دانشوروں نے بھی حیات اقبال پر روشنی ڈالی۔ ایک مقرر نے اپنی تقریر میں حضرت علامہ اقبال کے بارے میں کہا کہ وہ " تضادات " پر مبنی فکر کے حامل تھے۔ زمانہ ترقی کر رہا ہے اور اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ ....
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ایک طرف تو وہ علیحدہ وطن کیلئے جدوجہد کا درس دیتے ہیں اور آل آنڈیا مسلم لیگ کے صدر بھی رہے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ....
ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرھن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
دنیا میں کوئی بھی معاشرہ جمہوریت کے بغیر نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسکی اقدار درست سمت کی طرف رواں ہوسکتی ہےں مگر اقبال کہتے ہیں کہ۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ان حضرت کا یہ خطاب سن کر حکیم صاحب کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا۔ جس کا میں نے بخوبی اندازہ لگایا ۔میں نے سٹیج سیکرٹری ضیاءالمصطفےٰ سلہریا کو آنکھ کے اشارے سے کہا کہ یہ " خطاب " ختم کروا دو۔ اس سے کچھ چوک ہو گئی اور اتنے میں موصوف نے کہا کہ حضرت اقبال ذات پات کے نظام کی نفی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ....
یوں تو سید بھی مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاﺅ تو مسلمان بھی ہو
اور دوسری طرف غازی علم دین کی شہادت کے موقع پر کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہی رہے اور " ترکھانوں " کا لڑکا بازی لے گیا۔ کیا شہید کی بھی کوئی ذات برادری ہوتی ہے یہاں پر میری نظر حکیم صاحب پر پڑی تو فی الفور مجھے مداخلت کرنا پڑی۔ خو د سٹیج پر جا کر اس مقرر کو ذرا ہٹا کر اپنی بات شروع کی اور اقبال کے فکری پہلو کے حوالے سے جواب دینا چاہو تو حکیم صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی گرجدار آواز اور ایمانی لہجے میں ان کا ایسا اعلیٰ جواب دیا کہ سب سامعین حکیم صاحب کے تحبر عملی کے قائل ہو گئے۔ آپ انکے بیٹے حکیم راحت نسیم سوہدروی کی " حیات نسیم" یا" حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی " ملاخطہ فرمائیںتو انکی زندگی کے فکری اور ذاتی پہلوﺅں کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں برصغیر پاک وہند کے چند نمایاں ترین راہنماﺅں میں سے تھے۔ ایسے مقرر کہ ایک بار علی گڑھ میں مولانا الطاف حسین حالی نے ان کی تقریر سنی تو گلے سے لگا لیا اور " نازش لوح وقلم" کا خطاب دیا۔ ان کا جاری کردہ " زمیندار " اخبار اپنے وقت میں برصغیر کی سیاسی تحریکوں کا رخ متعین کرتا تھا۔ بھگت سنگھ اوراُسکے متوالے ساتھیوں کو پھانسی ہوئی تو مولانا نے کہا کہ....
شہیدان وطن کے خون ناحق کا جوست نکلے تو
اسکے ذرے ذرے سے بھگت سنگھ اور دت نکلے
زندگی کے چودہ سال آزادی کی خاطر طوق و سلاسل کی نذر کر دئیے۔ سیاست کی شطرنج پر مخالف کو مات دینا کوئی ان سے سیکھے " نگارستان " اور" چمنستان" جیسے شعری مجموعے ارد و ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں کے علمی مقام اور جگر داری کی انتہا کو جانچنے کیلئے حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی سے گویا ٹکٹ لینا پڑتی تھی۔پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں وزیر آباد کی " ہائی کلاس بیکری" سے کچھ سامان خریدنے اور اپنے دوست کریم بٹ سے ملنے گیا تو حکیم صاحب کی بابت دریافت کیا ۔معلوم ہوا کہ وہ تھک چکے تھے اس لیے مولا کریم نے آرام کیلئے اپنے پاس ہی بلا لیا ہے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم