سال کے 365 دنوں میں، ایک دن، جو ان سب دنوں کا سردار ہے۔ جو سب سے بڑا دن ہے اور جو سب سے اہم دن ہے اور اس دن کو مسلمانان عالم اپنی اپنی محبتوں میں گوندھ کر مناتے ہیں۔ وہ 12 ربیع الاول کا دن ہے۔ اس دن تمام عالم اسلام میں گویا یوم محبت منایا جاتا ہے ہر کوئی اپنے عقیدے کیمطابق جس طرح بھی اظہار محبت کرے اذن عام ہے۔
اس دن کو سارے دنوں پر فوقیت اس لئے ہے کہ اس دن خاتم الانبیائ، حبیب خدا، محمد مصطفےؐ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ کون و مکان جن کے منتظر تھے۔ شجر و حجر جن کی ثناء کر رہے تھے۔ کائنات جن کے بغیر ادھوری تھی۔ وہ تشریف لائے۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب سے مروی ہے کہ شب ولادت میں آپ کا نور شمع اور قمر پر غالب تھا۔ چھ خوارق میرے دیکھنے میں آئے۔ دوم آپ کی زبان فصاحت بیان سے کلمہ طیبہ سنا گیا۔ آپ کے نور سے تمام گھر منور ہوا آپ کے غسل کا ارادہ کیا تو غیب سے ندا آئی اے صفیہ تکلیف نہ کر آپ ناف بریدہ و مختون پیدا ہوئے۔ آپ حضورؐ کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت پر کلمہ طیبہ منقوش تھا۔ اس رات فارس کے محلات کے چودہ کنگرے لرزہ براندام ہوئے اور ریزہ ریزہ ہو گئے۔ اسی رات نوشیروان نے خواب دیکھا کہ چند عربی آدمیوں نے وحشی گھوڑوں اور زبردست اونٹوں کو کھینچا اور لے گئے۔ دریائے دجلہ پھٹ کر تمام شہروں میں پھیل گیا۔ اہل فارس کا آتشکدہ جو ہزار سال سے برابر جل رہا تھا۔ اس رات دفعتاً سرد ہو گیا۔ دریائے سادہ خشک ہو گیا۔ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت جبریلؑ کو حکم دیا کہ آسمانوں، زمینوں، جنگلوں اور دریائوں کے رہنے والوں میں حبیب کردگار محبوب کبریاؐ کی بشارت ولادت کی منادی کرو۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی…؎
وہ شاہ مدینہ پیدا ہوا، سبحان اللہ سبحان اللہ
اللہ بھی جس کا شیدا ہوا، سبحان اللہ سبحان اللہ
چنانچہ فرش سے لے کر عرش تک صل علیٰ کی دھوم مچ گئی۔ تمام اویان باطلہ منسوخ ہوئے کائنات نے ایک انگڑائی لی۔ انسانیت نوازی اور انسان شناسی کی ایک نئی تاریخ شروع ہو گئی۔ اس سال یعنی دسمبر 2015ء میں 12 ربیع الاول کا بڑا دن 24 دسمبر کو آ رہا ہے…
آنحضرتؐ کی پیدائش حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے پانچ سو اکتہر سال بعد ہوئی۔
امام حدیث ابن عساکر نے دنیا کی مجمل تاریخ اس طرح لکھی ہے کہ حضرت آدمؑ اور نوحؑ کے درمیان ایک ہزار دو سو برس کا فاصلہ ہوا اور حضرت نوحؑ سے حضرت ابراہیمؑ تک ایک ہزار ایک سو بیالیس سال کا اور ابراہیمؑ سے حضرت موسیؑ تک پانچ سو پینسٹھ برس کا فرق ہوا اور حضرت موسیٰؑ سے حضرت دائودؑ تک پانچ سو بہتر سال کا فاصلہ ہوا اور حضرت دائودؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک ایک ہزار تین سو چھپن سال کا اور حضرت عیسیٰؑ اور حضرت خاتم الانبیائ، امام رسل، فخر موجوداتؐ کے درمیان چھ سو برس کا فاصلہ گزرا ہے۔
صدیاں گزرتی رہتی ہیں اور کیلنڈر بھی بدلتے رہتے ہیں۔ پھول پات بدلتے ہیں تو ان کے دن رات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ دنوں کے ساتھ حالات اور معمولات میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ خود باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں درج فرمایا ہے کہ میں دنوں کا الٹ پھیر کرتا رہتا ہوں۔
اور یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ 2015ء کے عیسوی کیلنڈر میں حضرت عیسیٰؑ کا یوم پیدائش 25 دسمبرتو قمری کیلنڈر میں رحمت اللعالمین کا یوم پیدائش 24 دسمبر درج ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے اپنی مذہبی کتاب انجیل میں نبی آخر الزمانﷺ کی آمد کی بشارت بھی دی ہے۔
کوئی مذہب کسی دوسرے دین کی نفی نہیں کرتا…
لیکن آج مسلم امہ ایک مخمسے میں گھری کھڑی ہے۔ ابتلا کا دور ہے۔ آج پھر امت مسلمہ ایک آزمائش سے گزر رہی ہے۔ کیا یہ تبلیغ دین کا کام ہے؟ کیا وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ اپنے نبی اکرمؐ کے پیغامات کو فراموش کررہے ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کوئی بندہ اس وقت تک پورا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے وہ چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذائوں سے محفوظ نہ ہو گا۔ یہاں پڑوسی کے ساتھ مذہب کا لازمہ نہیں لگایا گیا۔
آپس میں قطع تعلق نہ کرو۔ ایک دوسرے کے درپے نہ ہو۔ آپس میں بغض نہ رکھو اور حسد نہ رکھو۔ دنیا مسلمانوں کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے۔
آج جمیع مسلمانوں کو جشن آمد رسولؐ مناتے ہوئے سوچنا ہو گا۔ کیا انہیں حجتہ الوداع کا خطبہ یاد ہے۔ کیا وہ عمل سے عاری ہو گئے ہیں اور میلاد النبیؐ کی ایک محفل منعقد کر کے سرخ رو ہو جاتے ہیں۔ کیا ان کی اولادوں کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے اور کیا ان کی اولادوں کے بارے میں روز حشر ان سے سوال نہیں کیا جائیگا۔
دوسری طرف مسیحی برادری بھی اس مہینے کرسمس کی خوشیاں منا رہی ہے۔ انکو بھی مبارکباد ہو۔ وہ بھی حضرت عیسیٰؑ کے فرمودات کو یاد رکھیں۔ تمام عالم کی مسیحی برادری کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ ایک شخص کی بری کارگزاری کا الزام پوری امت مسلمہ کے سر تھوپنا درست نہیں ہے۔
مسلمانوں اور مسیحیوں کو ربیع الاول کا یہ مقدس مہینہ باہم محبت، یکجیتی اور رواداری کیساتھ منانا چاہئیے۔ صدیوں بعد یا سالوں بعد ایسا موقع آتا ہے۔
حضرت خواجہ حسن نظامیؒ نے اس زمانے میں مسلمانوں کی حالت زار کا ایسا نقشہ کھینچا تھا اور سرور کونین شاہ بطحاؐ کے حضور عرض کیا تھا۔
اے نورانی سرور: اے یزدانی پیغمبر!
اے امتی امتی کہنے والے: لاچاروں کے ہاتھ پکڑنے والے!
سلام لیں شکستہ حالوں کا۔ جھکے ہوئے سروں کا، تڑپنے والے دلوں کا، دستگیری کا وقت ہے، نائو ڈبکیاں کھاتی ہے، طوفان سر پر آیا ہے۔ حالی نے کہا تھا…؎
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے