ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ حکمران اگر انتخابات کے تکنیکی نظام کے ذریعے منتخب ہوا ہے تو یہ جمہوریت ہے۔منتخب حکمران آئینی اداروں کو مفلوج بنا کر خود ہی سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھے تو اس کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت کا یہ پود ا ایک دن تناور درخت بنے گا۔اسی طرح ہمارے ہاں جو نظام رائج ہے اسے پارلیمانی نظام کہا جاتا ہے حالانکہ حقیقت بیانی سے کام لیا جائے تو کوئی ذی شعور شخص ایسے نظام کو پارلیمانی نظام تسلیم نہیں کر سکتا جہاں پارلیمان قانون سازی میں آزاد ہونے کی بجائے انتظامیہ کے حکم کی پابند ہو۔صاف ظاہر ہے اگر قانون سازی بھی مقننہ کی آزادانہ مرضی کی بجائے انتظامیہ کے حکم سے ہونی ہے تو ایسے نظام کو پرائم منسٹریل سسٹم کا نام دیا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔اور اگر اس قسم کے ماحول میں عدلیہ بھی انتظامیہ کے تسلط سے آزادی کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے تو پھر ایسے نظام کو منتخب آمریت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بد قسمتی یہ ہے کہ قومی و صوبائی سیاست سے منسلک ہر شخص اپنے دائرہ کار میں محدود رہنے کی بجائے تھانہ کچہری سے لیکر سڑکوں نالیوں تک اور اسلحہ لائسنس سے لیکر عہدوں اور ٹھیکوں کی بندر بانٹ تک جملہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا اپنا حق سمجھتا ہے اور وہ اس پر قدرت بھی اسلئے رکھتا ہے کہ مرکزی یا صوبائی انتظامی سربراہ کیلئے ایوان میں اپنی اکثریت قائم رکھنے کی خاطر ان کی خوشنودی لازم ہے۔اس کا واحد ممکنہ حل یہی ہے کہ انتظامی سربراہ کا انتخاب اراکین اسمبلی کی بجائے براہ راست عوام کے ووٹ سے کیا جائے۔ ریاست کے اس منتخب انتظامی سربراہ کو صدر کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ہاں صدر کو وزیر اعظم کی طرح تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے سے روکنے کیلئے عدلیہ مقننہ پبلک سروس کمیشن اور بلدیہ جیسے جملہ اداروں کی آزادی یقینی بنا کراور معقول وجوہات کی بنا پر مواخذے کی کاروائی جیسی آئینی شقوں سے اپنی آئینی حدود و قیود میں رکھا جا سکتا ہے۔ صدر کے جملہ اہم اقدامات کو نوے دن کے اندر پارلیمان کی توثیق سے مشروط کیا جا سکتا ہے ۔اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو کے اختیار کے حوالے سے واضح آئینی شقوں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے کیلئے سب سے پہلے پارلیمان کے اراکین کو ترقیاتی کاموں،پولیس افسروں کے تبادلوں اور دیگر غیر آئینی معتبریوں سے دور کر کے صرف قانون سازی کے کام تک محدود کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ اراکین اگر سرکاری ملازم کی مانند ماہانہ تنخواہ پر کام کریں تو انہیں نہ صرف سرکاری ملازم کی طرح اپنی مدت کے دوران کسی قسم کے بزنس کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے بلکہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر حاضری کی پابند ی بھی کرنا چاہئیے ۔ الیکشن میں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کیلئے ڈالے گئے ووٹوں کا اکیاون فیصد حاصل کرنا ضروری ہو۔ اگر اس سے کم ووٹوں پر کامیاب تصور کیا جاتا ہے تو اکثریت کی بجائے اقلیت کے نمائندے اسمبلیوں میں براجمان رہیں گے جو کسی طور پر بھی جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں۔ اگر جمہوریت کے ثمرات سے اشرافیہ کی بجائے عوام کو مستفید کرنا مقصودہے تو تقسیم اختیارات کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کی تحویل میں دینا ہونگے۔ سرکاری ملازمتوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کی سفارشات لازمی قرار دینا ہونگی۔ عدلیہ کی آزادی اور فوری انصاف یقینی بنانے کیلئے جہاں انتظامیہ کی ہر مداخلت کا خاتمہ ضروری ہے وہاں پروسیجرل قوانین کی ان شقوں کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے جو مقدمات کی طوالت کیلئے بے جا استعمال ہو سکتی ہیںنیز اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کوئی سائل انصاف سے محروم نہ رہے اور کوئی بڑی مچھلی حتیٰ کہ کوئی مگر مچھ احتساب سے بالا نہ رہے۔ کیونکہ جمہور کی حق رسی کے بغیر جمہوریت کا تصور بے معنی ہے۔اور اگر جمہور کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ہم بحیثیت قوم واقعی مخلص ہیں تواختیارات کے ارتکاز کا خاتمہ کر کے تقسیم اختیارات کے اصول کی کڑوی گولی کھانی پڑے گی۔اور یہ سب کچھ مروجہ پارلیمانی نظام میں رہ کر ممکن نہیں۔کیونکہ وزیر اعظم کا الیکٹورل کالج اس کے انتخاب کے بعد برخواست نہیں ہوتا بلکہ سر پر تلوار کی مانند قائم رہتا ہے جس سے وزیر اعظم کرنا بھی چاہے تو اپنے الیکٹورل کالج کے اراکین کا احتساب نہیں کر سکتا ۔لا محالہ اس کا ذاتی طور پر بھی احتساب سے بالا رہنا بعید از قیاس نہیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور پھر ان اداروں کو اختیارات کی منتقلی میں غیر معمولی تاخیر بھی محض اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ نالیوں گلیوں جیسے بلدیاتی سطح کے کام بھی حکومتیں خود ہی کرنے میں دلچسپی لیتی ہیں۔سندھ حکومت نے کراچی شہر کا کچرا اٹھانے کیلئے منتخب مئیر کو اختیارات دینے کی بجائے چین کی کمپنی کو ٹھیکہ دینامناسب سمجھا ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ پارلیمان کرپشن کے سنگین الزامات کے باوجود حکومت کا دفاع کرنے کی پابند نظر آتی ہے یہی وہ ماحول ہے جس میں نہ صرف اقربا پروری پروان چڑھتی ہے اور ادارے بے مقصد ہو کر رہ جاتے ہیں بلکہ کرپشن کا جن بے قابو ہو تا ہے۔ جبکہ صدارتی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کے باوجود حکمران کے سر پر ایسی کوئی تلوار نہیں ہوتی لہٰذا اس نظام میں تقسیم اختیارات کے اصول پر عمل پیرا ہو کر قانون کی حکمرانی کو زیادہ آسانی سے ممکن بنایا جا سکتا ہے اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہوتا لہٰذا تقسیم اختیارات پر مشتمل صدارتی نظام بہتر طور پر جمہوریت کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم قومی اتفاق رائے اور خلوص شرط ہے۔