ہمارے مسیحا

معاشرے میں کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگ دینے والے کچھ لینے والے اور کچھ ان دونوں کے بین بین ہوتے ہیں لیکن بہرحال کچھ لوگوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتیں پیدا کی ہیں کہ وہ اپنے ارد گرد خیر و بھلائی بانٹنے کا سبب بنتے ہیں۔ کچھ مہارتیں ایسی ہیں جن کے ذریعے آپ بہت سے لوگوں کی ناگزیر ضرورت بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ پیشے ایسے ہیں جو انسانیت کو بہت زیادہ تسکین اور فائدہ دینے والے ہیں۔ ڈاکٹری کا پیشہ بھی ان پیشوں میں سے ایک ہے جس کی معاشرے میں بہت اہمیت اور عزت ہے۔ جب ہم یا ہمارا کوئی پیارا بیمار پڑتا ہے تو ڈاکٹر ایک ایسے مسیحا کے روپ میں نظر آتا ہے جو ہم سے ہمارے بیمار سے تمام درد‘ دکھ اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور بیمار شفایاب ہو کر اس مسیحا کو دعائیں دیتا ہوا معمول کی زندگی میں لوٹ آتا ہے اور اس کے دل میں اس مسیحا کی عزت اور وقعت ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس پیشے کو معاشرے میں ہمیشہ ہی بہت عزت اور اہمیت حاصل رہی ہے۔ ڈاکٹر اور انسانیت کا ہمیشہ آپس میں بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن میں جب کسی بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر کیا بنے گا تو اکثر بچوں کا جواب ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر وہ ڈاکٹر بنیں گے اور دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے کیا خوب صورت جذبہ منسلک ہے اس مقدس پیشے کے ساتھ۔آج جب اس پیشے سے منسلک لوگوں کی معاشرے میں کم ہوتی ہوئی عزت اور وقعت دیکھتے ہیں تو دل بہت دکھتا ہے اس پیشے کی Dignity رہنی چاہئے لیکن اس پیشے سے منسلک لوگوں کو بھی اپنے رویے بہتر بنانے ہوں گے۔ آج آئے روز ینگ ڈاکٹرز کا سڑکوں پر نکلنا ہسپتال میں ایمرجنسی بند کروانا اپنے فرائض سے روگردانی برتنا ایک نہایت ظالمانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جو اس پیشے سے منسلک لوگوں کی شایان شان نہیں۔ جنہیں لوگ مسیحا کے نام سے جانتے ہیں اور جن کو حضرت مسیح (حضرت عیسیٰؑ) کی نسبت سے جانا جاتا ہے۔ اس مسیحاؤں کے انتظار میں انسانیت ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تڑپتی سسکتی رہتی ہے اور یہ سڑکوں پر دھرنے دیئے بیٹھے ہوئے ہیں کیا انہیں اس قسم کے احتجاج زیب دیتے ہیں۔یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر بنانے میں حکومت کے تقریباً پچاس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باہر ملکوں میں اس قسم کی پیشہ وارانہ تعلیم بہت مہنگی ہے اور ہر ایک کے دائرہ اختیار میں نہیں لیکن پاکستان میں جب ایک بچہ اپنی لیاقت کی بنا پر میڈیکل کالج میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے تقریباً تمام تر اخراجات کا ذمہ حکومت لے لیتی ہے۔ وہ بغیر کسی اضافی معاشی مشکلات سے گزرے اطمینان سے اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے جبکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے طالب علموں کو سو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ انہیں جز وقتی ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر بنتے ہی ڈاکٹروں کو اچھے ہسپتالوں میں ہاؤس جاب مل جاتی ہے۔ نہ ہی انہیں کوئی Volunteer اور سوشل ورک کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی دور دراز علاقوں میں جا کر خدمات انجام دینی پڑتی ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشرے کے اس پڑھے لکھے اور باشعور طبقے میں بھی شکرگزاری سے زیادہ شکایتی رویے پائے جاتے ہیں۔ شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کا بھی ایک کرینہ اور سلیقہ ہوتا ہے اگر انہیں حکومت سے کچھ شکوے شکایات ہیں تو ان کو رجسٹر کرانے اور ان کے حل ڈھونڈنے کے اور بھی کئی مہذب طریقے ہوں گے۔ اس طرح سے اپنے مقدس پیشے کی تذلیل کرنا جس کا مقصد ہی انسانیت کی خدمت ہے کسی طور بھی مناسب نہیں۔
میری ارباب اختیار سے بھی درخواست ہے کہ ڈاکٹروں کے جائز مطالبات مان لئے جائیں تاکہ یہ پرسکون ہو کر اپنے پروقار اور باعزت منصب کا حق ادا کر سکیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے دل انسانیت کیلئے محبت‘ نرمی اور رحم سے بھر دے تاکہ یہ دکھی انسانیت کیلئے مسیحا کا روپ دھار لیں اور تڑپتی سسکتی‘ دکھی اور بیمار انسانیت ان کے ہاتھوں شفایاب ہو کر ہمیشہ کیلئے انہیں اپنی دعاؤں میں بسا لیں اور اس پیشے کو پھر سے معاشرے میں عزت اور وقار حاصل ہو جائے۔

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

ای پیپر دی نیشن