امریکہ اور مغرب اب تو حلب کے مقتل پر ماتم کناں ہے روس و ایران و بشار الاسد کو سنی مظلوم عربوں کی قتل عام کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے تو دوسری طرف ٹرمپ کی جیت کو صدر پیوٹن کی سازش اور شاطرانہ چال قرار دے رہا ہے دنیا کو یاد ہے کہ کبھی بورس یلنس کے روسی صدر بننے کو سی آئی اے کی کامیاب حکمت عملی کہا گیا تھا۔ آج پیوٹن کے روس نے بدلہ لے لیا اور جب صدر اوبامہ اور سی آئی اے روس کی طرف مداخلت کے ’’اشارے‘‘ کر رہے ہیں تو کس خفت سے دوچار ہیں؟ کیا اسی قسم کی خفت اور شکست انہیں شام و عراق میں اپنائی گئی مکارانہ اور منافقانہ پالیسیوں پر ہو رہی ہے؟ آج کے مغرب و امریکہ کے بشارالاسد‘ ایران و روس پر قتل عام کے الزام نے ایک طرف امریکہ کو بزدل‘ بے وفا‘ بدعہد‘ دوستوں کی کمر میں خنجر گھونپے والا سعودی و خلیجی دشمن ثابت کیا ہے تو دوسری طرف شام و عراق و یمن کے حوالے سے سعودی وخلیجی تعاون کونسل کے نقطہ نظر کو سچا بھی ثابت کر دیا ہے۔ آج کا امریکہ واضح الزام لگاتا ہے کہ ایران عرب ممالک میں مداخلت کرتا رہا ہے اور اقوام متحدہ میں بھی عرب سفراء یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں۔ روس نے سیکورٹی کونسل میں امریکہ وفرانس ومغرب وعربوں کی پیش کردہ حلب کے حوالے سے قراردادوںکو ’’ویٹو‘‘ کرکے سب کے دانت کٹھے کر دئیے ہیں۔ کچھ روز پہلے برطانیہ کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کیخلاف بیان دیدیا تھا جس کا وزارت خارجہ اور برطانوی وزیراعظم نے بہت برا منایا تھا اور اسے سعودی عرب و برطانیہ کی قدیم دوستی کے منافی قرار دیا تھا۔ شاید خود برطانوی وزیراعظم اس وقت مشرقی وسطیٰ میں موجود تھی۔ کیا یہ بیان ’’بیہوشی‘‘ کی حالت میں جاری ہوگیا تھا؟ یا برطانیہ سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کی سفارتی سوچی سمجھی کوشش تھی؟ اب وہی وزیر خارجہ خود مشرقی وسطیٰ کے دورے پر آنیوالے ہیں۔ یمن میں سعودی عرب کا موقف اسی طرح سچا ہے جس طرح شام وعراق میں امریکہ وبرطانیہ کی ایران سے خاموش مفاہمت کی بنیاد پر اپنائی گئی عرب دشمن سیاست کا سورج پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ہم بیس سال سے لکھ رہے ہیں کہ 9/11 سے بہت پہلے ایران امریکہ میں طویل مدتی مفاہمت اسی طرح ہوگئی تھی جس طرح 1916 میں فرانس اور برطانیہ عظمی نے مشرقی وسطی کی بندربانٹ اور یہودیوں کو وطن دینے کی خاموش مفاہمت اور معاہدہ کر لیاتھا۔ ہم سے کئی قارئین نے پوچھا ہے کہ امریکہ وسعودی عرب کے اس الزام کہ ایران یمن میں حوثیوں کو اسلحہ ومدد فراہم کرتا ہے کا امکان کیا ہے اور کیسے ہے؟ جبکہ ایران کی کوئی سرحد یمن سے نہیں ملتی۔ ذرا سمجھئے کہ ایرانی آبنائے ھرمز سے خلیجی تیل کے تمام جہاز اور تجارت گزرتی ہے۔ پھر گوادر وکراچی کے سامنے سے بحیرہ عرب جاتی ہے پھر بحیرہ عرب کے اختتام پر آبنائے باب المندب شروع ہوتا ہے اسکے ایک کنارے پر بندر گاہ عدن ہے اس سے آگے بندرگاہ حدیدہ ہے یہ سارا علاقہ مختصر ترین سمندر ہے۔ جہاں ڈاکوؤں کی حکمرانی ہوتی ہے اس آبنائے سے دائیں طرف سعودی عرب ہے بائیں طرف نائیجیریا افریقی ملک ہے یمن کی تمام تر جو طاقت ہے وہ اس تنگ آبی گزر گاہ کی وجہ سے ہے یہ آبنائے ختم ہونے پر بحیرہ احمر شروع ہوتا ہے جس پر جدہ پہلی سعودی بندر گاہ ہے اور آخری نہر سویز ہے۔ گویاحوثی باغیوں کو بڑی آسانی سے اسلحہ ودیگر امدادی سامان بحیرہ عرب کے ذریعے عدن بندرگاہ پرمل سکتا ہے۔ امریکہ نے کچھ عرصہ عدن کے سمندری علاقہ کا محاصرہ کیا تھا تو ایرانی جہازوں کی تلاشی لی جاتی تھی۔ پاکستان سے جب جنرل راحیل اور وزیراعظم نوازشریف کے ابتدائی عہد میں دفاعی معاہدہ کیا تھا تو سعودی عرب کی خواہش تھی کہ پاکستانی بحریہ کے جنگی جہاز گوادر سے عدن بندرگاہ کے درمیان اسلحے کی ترسیل اوراسمگلنگ کو اپنی ناکہ بندی سے ناممکن بنا دئے مگر پاکستان سعودی عرب کی یہ خواہش پوری نہیں کرسکا تھا۔ پاک ایران پڑوس کی بنا پر موجود اپنی مجبوریاں اوراسباب تھے۔ مگر آج کے موسم میں سعودی عرب کا موقف بالکل صحیح ثابت ہورہا ہے ۔ سعودی بیچارے بہت زیادہ مظلوم ہیں ہمیشہ عالم اسلام میں جہاں مظلوم یا کمزور مسلمان ہیں انکی ہر قسم کی وہ مدد کرتے ہیں شام میں بھی کی ہے۔ عراق میں انہوں نے سنی شیعہ مفاہمت کے ذریعے حکومت سازی پر اصرار کیا تھا مگر امریکہ وبرطانیہ وایران کی مستقبل کی ’’نئے مشرق وسطیٰ کی تخلیق‘‘ منصوبہ بندی نے شاہ عبداللہ کی یہ ساری کوششیں ناکام بنا دی تھیں۔ سعودی وخلیجی شام میں اس ’’اپوزیشن‘‘ کی ہتھیار اور مدد دینے کا امریکہ ومغرب سے مطالبہ کرتے تھے جو آج ہرجگہ قتل ہو رہے ہیں۔ مگر سب پر داعش کا الزام لگا کر کچلا دیا گیا ہے پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سہ روزہ دورے پر ریاض گئے ہیں۔ نائب وزیر دفاع نے ریاض ائیر پورٹ پران کا استقبال کیا ہے شاہ سلمان پاکستان سے مایوس ہو کر بھی بہت محبت کرنیوالے حکمران ہیں۔ وزیر دفاع محمد بن سلمان ہنگامی طور پر کئی مرتبہ اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔ شائد مستقبل خلیجی عربوں کو اور بھی پاکستان کے قریب لے آئیگا کیونکہ بھارت کے عشق میں جس طرح یو اے ای والے مبتلا ہوئے ہیں اور سرمایہ کاری کی بھارت کے اندر کا معاشی عدم استحکام اور مودی کی مسلمان دشمنی ان عربوں کی بند آنکھیں بھی کھول دیگی۔ انشاء اللہ۔ صبح صبح 19 دسمبر کی خوشخبری آئی کہ روس حلب سے مظلوم عربوں کے محفوظ انخلاء پر راضی ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کی تعیناتی کیلئے روس آمادہ ہو گیا ہے پہلا تین سو افراد کا قافلہ روانہ ہو گیا ہے۔ ہم صدر پیوٹن کا اس ’’مہربانی‘‘ پر شکریہ ادا کرتے ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ اب وہ سعودی و خلیجی تعاون کونسل کے ’’دل‘‘ جیت لے۔ ایران کی ’’محبت‘‘ سے کچھ تو باہر نکلے اور شام میں ’’نئی‘‘ مفاہمت کروا کر ’’سنی اور معتدل شیعہ‘‘ حکومت قائم کروائے یہی مطالبہ عراق میں امریکہ و ایران سے روس کر کے عملدرآمد کروائے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کی شاہ سلمان آل سعود‘ ولی عہد محمد بن ناثف وزیر داخلہ‘ وزیر دفاع محمد بن سلمان‘ چیف آف جنرل سٹاف جنرل عبدالرحمن بن صالح سے ملاقاتوں میں ہونیوالا اتفاق رائے نوائے وقت تفصیل سے شائع کر چکا ہے۔ ہم سعودی و خلیجی تعاون کونسل کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں کی شیعہ عرب شہریوں کے اندیشے و خدشات کا خاتمہ کریں اور اعتدال پسندوں کو اپنی اپنی حکومتوں میں شامل کریں۔
مقتل حلب پر امریکی فرانسیسی ماتم سعودی و خلیجی موقف کی سچائی
Dec 20, 2016