ذمہ داروں کا تعین کردیا ایبٹ آباد کمشن رپوٹ منظر عام پرلائی جائے

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) لاپتہ افراد کے بارے میں کمشن اور ایبٹ آباد کمشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد کمشن کی مرتب کردہ رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشن نے رپورٹ میں کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ ذمہ داروں کا مکمل تعین کردیا ہے کہ کون کس مرحلے پر ذمہ دار تھا اور کون کس مرحلے پر ذمہ داری پوری نہیں کرسکا، رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، سینٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کو لاپتہ افراد کے بارے میں بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری چھوٹی بیٹی نے پوچھا تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں تھا کہ نہیں میں نے جواب دیا تھا کہ اگر یہ بتادوں تو رپورٹ میں باقی کیا بچے گا۔ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کسی الماری میں پڑی ہوگی اسے کو منظر عام پر لایا جائے، میڈیا رپورٹس آئی ہیں کہ ایبٹ آباد کمشن نے سب کو بری الذمہ قرار دیا ہے تو اس پر حیران ہوا کہ میں نے تو کسی کو اپنی رپورٹ میں بری الذمہ قرار نہیں دیا، کمشن کی رپورٹ سفارشات کے ساتھ حکومت کے پاس موجود ہے۔ میں نے حلف اٹھا رکھا ہے اس لئے رپورٹ سے متعلق کچھ بتا نہیں سکتا لیکن یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ تمام واقعات، تمام شواہد اور تمام کوائف دلائل کے ساتھ رپورٹ میں موجود ہیں، ذمہ داروں اور ذمہ داری کا تعین رپورٹ میں کردیا ہے اب حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفارشات پر عملدرآمد کرائے۔ رپورٹ میں اس وقت کے آرمی چیف اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا تاہم جو بھی ذمہ دار ہیں ان کے بارے میں لکھ دیا ہے۔ حکومت نے ایبٹ آباد کمشن کیلئے 5کروڑ روپے مختص کئے تھے تاہم ہم نے تمام رقم حکومت کو واپس کردی ہے۔ دریں اثنا سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہیں، شادی کے چند ماہ بعد جوان عورتوں کے شوہر لاپتہ کردیئے جاتے ہیں وہ اپنے شوہر کی تلاش میں دربدر پھرتی ہیں، بے شمار مائیں اپنے بچوں کی تلاش کیلئے ٹھوکریں کھاتی ہیں اور صرف لاپتہ افراد کمشن ہی ایسا فورم ہے جو انہیں نا صرف داد رسی فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے لاپتہ ہونے والوںکو بازیاب بھی کرواتا ہے۔ پنجاب کے 223، سندھ کے 200، بلوچستان کے 96،کے پی کے 654، فاٹا کے 53، آزادکشمیر کے 11اور گلگت بلتستان کے 4کیس کمشن کے پاس زیرسما عت ہیں۔ کمشن انتہائی محدود وسائل کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہا ہے سب سے خراب حالت پنجاب کی ہے،223افراد کے کیس کمشن کے پاس ہیں، جنوبی پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر افراد لاپتہ ہورہے ہیں کمشن کے پاس کیس آرہے ہیں وہاں پولیس کی تفتیش مکمل طور پر ناکام ہے اور تھانہ کلچر ویسے کا ویسا ہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے جنوبی پنجاب میں صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے کمشن کے پاس ملک بھر سے 1276افراد کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اہمیت دے رہی ہیں نہ ہی کمشن کے ساتھ تعاون کیا جارہا ہے،جنوبی پنجاب کی حالت انتہائی خراب ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کراچی کے 368لاپتہ افراد کی فہرست دی انکوائری شروع کی تو 309افراد مختلف کیسوں کے باعث جیلوں میں تھے زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،خفیہ ادارے کمشن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں،بجٹ دیا نہیں تو وزارت داخلہ کا ایک سیکشن افسر کمشن کا آڈٹ کرنے آگیا،کمیٹی نے لاپتہ افراد انکوائری کمشن کے سربراہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ کمشن کے ساتھ تعاون کیلئے افسران کی ٹیم مختص کریں جبکہ کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے کمشن کو آئینی حیثیت دینے کیلئے بل تیار کرنے کی تجویز دے دی، سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے وزیرداخلہ چودھری نثار کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث کمیٹی سے علامتی واک آئوٹ کیا۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا کمیٹی کو لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بریفنگ دیتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ۔انہوں نے کہاکہ پنجاب حکومت کمشن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہی، پنجاب حکومت میں کمشن جب کیسوںکی سماعت کیلئے جاتا ہے تو کرائے ایک کمرے میں سماعت کی جاتی ہے، پنجاب کے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کیلئے کوشش کی تاہم ان سے ملاقات نہیں ہوپائی۔ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی نے باربار کی درخواست کے باوجود کمشن کو وقت نہیں دیا۔ سندھ میں 309 افراد جیلوں میں تھے اور زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے 200افراد لاپتہ ہیں اور کمشن کے پاس یہ کیس زیرسماعت ہیں لیکن سندھ حکومت کی طرف سے بھی بالکل تعاون نہیں کیاجارہا ، سندھ کے چیف سیکرٹری اور آئی جی بھی کمیشن کو کوئی اہمیت نہیں دیتے،جونیئر افسران کو کمشن کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جنہیں کیس سے متعلق علم ہی نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے 96کیس کمشن کے پاس ہیں اور بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق مبالغہ آرائی کی جارہی ہے پہلے کہا گیا کہ بلوچستان کے 18ہزار افراد لاپتہ ہیں، پھر یہ تعداد17ہزار بتائی گئی لیکن جب میں نے ان افراد کے کوائف مانگے تو کسی نے آج تک ان کے کوائف فراہم نہیں کیے ،بلوچستان کے بہت سے لوگ افغانستان اور جنیو ا میں ہیں جبکہ بڑی تعداد میں فراری کمیپوں میں بھی موجود ہیں۔ خیبر پی کے کے654کیس کمشن کے پاس زیرسماعت ہیں اور یہ صورتحال انتہائی سنگین ہیں ان میں زیادہ تر افراد 2009 اور 2007میں لاپتہ ہوئے لیکن آئی جی کے پی کے کی طرف سے بھی کوئی تعاون حاصل نہیں۔کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے تجویز دی کہ لاپتہ افراد کمشن کو آئینی شکل دینے کیلئے بل تیار کیا جائے جو پارلیمنٹ میں لایا جائے تاکہ یہ کمشن بغیر کسی مسئلے اور رکاوٹ کے اپنا کام جاری رکھے۔ انہوں نے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی کہ وہ کمشن کی معاونت کیلئے افسروں پر مشتمل ٹیم تشکیل دیں تاکہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ بلوچستان کے اندر انڈیا حالات خراب کر رہا ہے اور صوبے کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا ہے، وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگ پولیس اور ایف سی کا یونیفارم استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپنے اداروں پر الزام تراشی نہ کی جائے ،آئندہ اجلاس میں متعلقہ اداروں کو بھی طلب کرکے بریفنگ لی جائے گی۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہاکہ بلوچستان سے 1900افراد کے لاپتہ ہونے کی فہرست میں میرے پاس ہے، ان میں 7افراد میری فیملی کے ہیں جنہیں ماردیا گیا ہے، بلوچستان سے جتنی بھی نعشیں ملتی ہیں یہ تمام لاپتہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ سینیٹر اصرار اللہ زہری نے کہاکہ راحیل شریف جب آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرہوئے تو اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں پرائیویٹ لشکر دوبارہ فعال اور متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں، حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ دہشتگردی، دہشتگردوں کی معاونت اور سہولت کاری کے نام پر کسی کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی نعش ملتی ہے۔سینیٹر چوہدری تنویر نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی اہم ہے اس کو حل کرنا چاہیے اور اس کیلئے کمشن کو درکار وسائل فراہم کیے جائیں۔ اجلاس میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...