16 دسمبر ایک اداس کر دینے والا دن ہے۔ قومی سطح پر بھی،پشاور کے حادثے کی بنا پر بھی اور خود میری ذاتی سطح پر بھی۔ پشاور والا حادثہ اور میرا ذاتی سانحہ اُسی دن اور اُسی وقت رونما ہوئے تھے۔ تقریباً پچاس سالہ ساتھی کا بچھڑ جانا ہمارے خاندان کے لیے تو جانکاہ تھا ہی مگر پشاور میں جو کچھ ہُوا تھا اُس سے سیکڑ وں خاندان ایک داغ سینے پر لے بیٹھے تھے۔ اور 1971 کا سانحہ پورے ملک کے لیے اتنا تباہ کُن تھا کہ ہم آج بھی اُسے یاد کر کے ایک سسکاری بھر کر رہ جاتے ہیں۔ ہر چند کہ وقت بڑا مرہم ہے مگر سانحہ تو سانحہ ہے اور اکثر زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ مندمل ہو بھی جائیں تو دائمی نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبرِجمیل عطا فرمائے آمین !ثم آمین! عین اُسی دن یعنی 16 دسمبر2017 بروز ہفتہ ڈاکٹر انجنئیرجمیل احمد خان صاحب کی پاکستان اکیڈیمی آف انجنئیرنگ کے زیرِ اہتمام ایک سمپوزیم منعقد ہُوا۔ موضوع انتہائی نازک اور جدید تھا۔ CYBERSECURITY-WHERE DO WE STAND? سائبر سیکیورٹی ہے کیا؟ یہ ہے اپنے انٹرنیٹ، کمپیوٹر، فیس بُک، اور واٹس ایپ کی حفاظت۔ کہ کوئی اور ہمارے ڈیٹا میں گھُس کر اُسے اپنے مطلب کے لیے نہ استعمال کر لے۔ حسبِ روایت پروگرا م وقت پہ شروع تو ہو گیا مگر اختتام لیٹ ہُوا کیوں کہ اظہارِ خیال کرنے والے سبھی اصحاب کی خواہش لگتی تھی کہ کوئی دوسرا نہ ہو۔مگر دوسرے بھی تھے اور ابھی تو عمیر احمد خان نے نہ آ کر دوسروں کے لیے مزید کہنے کی گنجائش پیدا کر دی تھی۔ بلال عثمانی صاحب نے تلاوت ِ قرانِ حکیم کی۔سورۃلقمان کی آخری آیۃ جسمیں صبر کی تلقین اور یقین کی دولت سے محرومین کو ا ہلِ صبر کے ہلکا نہ پانے کے بارے میں ارشاد ہُوا ہے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹرجمیل احمد خان صاحب کے خطبۂ استقبالیہ سے ہُوا۔ اور آپ نے مختصراً’ سائبر سیکیورٹی کی اہمیت اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟‘ پر روشنی ڈالی اور اس اہم اور جدید ترین مسئلے کو اُجاگر کیا۔اُن کے خطاب سے یہ بات عیاں تھی کہ حکومتی سطح پر پاکستان میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہو رہا ۔جنابِ مبیت خان نے کینیڈا سے سکائیپ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور چونکہ وہ اس مسئلے سے بین الاقوامی سطح پر بخوبی واقف تھے اور اس سلسلے میں کئی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر چکے تھے لہٰذا بہت ہی پُر مغز اور پُر امیدگفتگو کی کا پختہ یقین تھا کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں دماغ بہت ہیں اور اچھے ہیں بس صرف اسپیشلائزیشن کی اور حکومت کی ترجیحات کی کمی ہے۔یہ جو حال ہی میں ATM کے سانحات پیش آئے ہیں ان میں چینی اور کینیڈین ہیکرزبھی ملوث تھے۔ہمیں چاہئیے کہ ہم ا پنے تعلیمی نصاب میں اس مضمون کو بھی شامل کریں۔آج کی جنگ روائیتی بندوق کی جنگ نہیں ہے آ ج سائبر وار فیر کا زمانہ ہے ہماری حکومتوں کو اس سلسلے میں جاگنا اور کچھ کرنا چاہیے ۔مسٹر وجاہت رجب صاحب ،کنسلٹنٹ ٹرینڈ مائکرو، سنگاپور نے حفاظتی اقدامات کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا اور اتنا کیا کہ لوگ اذان کی دعا مانگنے لگے۔ ہمیں تو لگا کہ وہ سیکیورٹی کی ترکیبیں بیچ رہے تھے ۔ان کے بعد ڈاکٹر جواد۔ اے۔ شمسی نے پیپر پڑھا ۔انہوں نے سائبر کرائمز اور اخلاقی حدودپر روشنی ڈالی۔وہ ہماری مذہبی اور اخلاقی قیود کے بارے میں اور نئی نسل کے بارے میں فکر مند تھے۔ انہوں نے نئی نسل اور اخلاقیات پر بات کی کہ یہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔پھر ڈاکٹر اسد آفرین صاحب ایسوسی ایٹ پروفیسر NEDUET کراچی تشریف لائے ۔انہوں نے دہشت گردی میں انٹرنیٹ کے استعمال پر روشنی ڈالی ۔آخر میں بحث مباحثہ تھا جس میں کچھ ہی لوگ حصہ لے سکے کیوں کہ آدھ گھنٹہ وقتِ مقررہ سے اوپر ہو چکا تھا۔لیکن ڈاکٹر صاحب نے چند منٹ کے خطاب میں حکومتِ وقت کے خوب لتے لیے کہ کوئی بھی اپنا کام نہیں کر رہا۔ جن کا کام جدید ٹکنولوجی کو سمجھنا او ر قوم کو سمجھانا ہے وہ فضولیات میں مبتلا ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز تمام کے تمام بجائے کسی بہتر اور جدید عصری چیلینجز کو سمجھنے اور سمجھانے کے انتہائی لغو ڈراموں(جن کو ڈرامہ کہنا ڈرامے کی توہین ہے)، فضول مباحثوں، گھٹیا موسیقی، بے مقصد شوز، بے تمیز خبروں، بکواسی تجزیوں اور واہیات اور ہندوستانی فلموں وغیرہ پر قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔بہر حال سائبر سیکیورٹی پر یہ ایک اچھا سمپوزیم تھا جس سے حکومتوں کی آنکھیں کچھ تو کھُل جانی چاہئیں کہ یہ زمانہ کن حملو ںکی زد پہ ہے اور ہمیں ان حملوں کا کیسے مقابلہ کرنا چاہئے۔کاش کوئی حکومتی نمائندہ ان سمپوزیمز میں حاضری دے دیا کرے کہ ان میں قومی سطح کی کار آمد باتیں ہوتی ہیں۔ اب آتے ہیں قومی سطح کے مسائل پر۔ آج کل سی پیک کا بہت چرچا ہے۔ تولیجیے چین کے لیے اچھی خبر سنیے اور پاکستان کے لیے ٹھن ٹھن گوپال: گوادر بندرگاہ کی آمدن کا اکانوے 91 فی صد چین کو جائے گا اور محض نو9 فیصد پاکستان کو ملے گا!!!کیا یہ مذاق ہے؟ جی نہیں یہ وہ معاہدہ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان یا تو طے پا چکا ہے یا طے پانے کو ہے۔سمندر پاکستان کا، زمین پاکستان کی، بندرگاہ پاکستان کی اور اس سب کا معاوضہ سو میں سے نو ۔ اُدھر نواز شریف نے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک کس کے خلاف؟ عدلیہ کے خلاف؟ بسرو چشم۔ یہ شوق بھی پورا کر لیں ۔ اُدھر چیف جسٹس صاحب نے بھی پاکستان بار کونسل سے خطاب میں اعلان کر دیا ہے کہ عدلیہ ہر گز دباؤ میں نہیں آئے گی۔ خواجہ سعد رفیق اپنے لیے نہایت ہی بد شگونی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ختمِ نبوت کے معاملے کو ختمِ حکومت قرار دے رہے ہیں۔ پتا نہیں ان کا انجام کیا ہوگا! فا اعتبرو یا اولی الابصار!اور آخر میں ’’سلیس فلسفہ ٔ سیاسیات‘‘ سے اقتباس غربت آزادی کی نفی ہوتی ہے۔غربت لوگوں کو اپنی مرضی سے کام کرنے سے روکتی ہے ‘آزادی ایک تگڑی قوت ہے جو لوگوں کو اپنے کام کرنے پر ابھارتی ہے‘ اگر کام کرنے کے ذرائع نہ ہوں توآزادی خواب و خیال بن کر رہ جاتی ہے۔ارادے یوں پورے نہیں ہوتے۔جب تک سرمایہ نہ ہو کسی بھی منصوبے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ چاہیے وہ منصوبہ کتنا ہی بہترین اور قومی نوعیت کا ہو‘سرمائے کی فراہمی آزادی کے لیے پہلی شرط (ضرورت) ہے۔
کوئی خیال اس وقت تک عمل پذیر نہیں ہوتا جب تک وہ کسی عملی شکل میں گُتھ کر نہ آئے۔