پیر حمید الدین سیالوی، پیر فخرالدین سیالوی اور پیر کرم شاہ

سجادہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف خواجہ حمید الدین سیالوی کی کال اورسنی اتحاد کونسل کی میزبانی میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس میں چند ارکان قومی و پنجاب اسمبلی نے استعفے دے دئیے ہیں۔ مستعفی ارکان کا موقف ہے کہ حکومت نے عقیدہ ختم نبوت پر گستاخانہ رویہ اپنایا۔مارچ 1993ء میں مجھے پہلی مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی تو مدینہ منورہ میں خواجہ فخرالدین سیالوی سے میری ملاقات ہوئی۔ مدینہ منورہ میں محمد علی ظہوری اور میرا قیام درویش ہدایت اللہ کی عمارت میں رہا۔ اسی عمارت میں پیر فخرالدین سیالوی قیام پذیر تھے۔ فخرالدین سیالوی معروف پیر طریقت اور شاعر بھی ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’باب جبریل‘‘ اشاعت پذیر ہو چکا ہے ۔ یہ خواجہ قمر الدین سیالوی کے برادرخورد تھے۔ پیر قمر الدین سیالوی، پیر حمیدالدین کے والد ہیں۔ خواجہ فخرالدین کی ولادت 1911ء کو سیال شریف ضلع سرگودھا میں اور وفات 19 جولائی 1998ء میں ہوئی۔ آپ کی تدفین سیال شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔پیر فخرالدین سیالوی نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ہمیشہ انفرادی حیثیت رکھی۔ ملاقات کے دوران انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اجتماعیت ضروری ہے۔ کسی دینی جماعت میں شامل ہو کر ہی انسان اسلام کی بہتر طور پر خدمت کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے والد، سیال شریف حاضری کے لیے جاتے رہے ہیں۔ مدینہ منورہ ہی میں پیر کرم شاہ الازہری سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ حکومت مصر سے ایوارڈ لے کر مدینہ منورہ پہنچے تھے۔ آپ آستانہ عالیہ سیال شریف کے خواجہ قمرالدین سیالوی سے بیعت ہیں۔ پیر کرم شاہ مدینہ منورہ میں اپنے ایک مرید کے ہاں مقیم تھے۔ پیر کرم شاہ سے ملاقات مسجد نبویؐ میں ہوئی تھی۔ میں نے انٹرویو کے لیے درخواست کی۔ انہوں نے مہربانی فرماتے ہوئے اگلے روز ناشتے کے بعد وقت دے دیا۔پیر کرم شاہ وفاقی شرعی عدالت کے رکن، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ (بھیرہ) کے پرنسپل اور ضیاء القرآن پبلی کیشنز کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ آپ ماہنامہ ضیاء الحرم کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ پیر محمد کرم شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارا مدرسوںکا نصاب تعلیم بہت ہی قدیم ہے، وہ موجودہ تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارا عالم جدید علوم سے بھی واقف ہو اور دین سے بھی شناسا ہو۔ انگریزی عالمی زبان ہے، اس کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ ایک عالم دین کے لیے اکنامکس کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔

پیر کرم شاہ صاحب نے کہا کہ ہمارے مدرسے میں وزیراعظم نوازشریف بھی آئے تھے۔ وہ ہمارے مدرسے کے نصاب اور طالب علموں کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ اسلامی ثقافت کے حوالے سے پیر کرم شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ اسلام ہر چیز لے کر آیا ہے۔ اپنی ثقافت کو بھی لے کر آیا ہے۔ ثقافت کیا ہے؟ ہمیں سوچنا چاہیے، کیا لکھنا ہے۔ ہمارے طور اطوار کیسے ہوں گے۔ کوئی ایک شعبہ ایسا بتا دیں جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ دی ہو۔ آج کل تو ثقافت فقط ننگے ناچ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ عورتیں اپنی زینت کی چیزوں کو ظاہر نہ کریں۔ اپنی چادریں اپنے سروں پر ڈال لیں۔ خوش خطی بھی آپ کی ثقافت ہے‘ تصویر کشی بھی ثقافت ہے۔ ایسی تصویریں بنانا جس سے بے حیائی کو فروغ نہ ملے۔ یہ سب ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔
پیر کرم شاہ کا نظریہ تھا کہ عورت سربراہ حکومت یا سربراہ مملکت نہیں بن سکتی۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ جنگیں بھی ہوتی ہیں، لشکروں کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس میں رات دن دوڑ دھوپ کرنا ہوتی ہے۔ ایک عورت جو چاہے کتنی ہی صحت مند کیوں نہ ہو، اس پر دس دن تو ایسے آتے ہیں جب اس کا ذہنی اور فکری نظام مضمحل ہو جاتا ہے۔ ان ایام میں وہ اس طرح نہیں سوچ سکتی جس طرح دیگر دنوں میں سوچ سکتی ہے۔ پھر زچگی کے دن بھی آتے ہیں۔ دشمن سرحد پر دستک دے رہا ہو اور ہم کہیں کہ نہیں ابھی نو ماہ ٹھہر جاؤ۔ وزارت عظمیٰ کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ تو بوجھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کوایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ پاؤں چلنے کے لیے، آنکھیں دیکھنے کے لیے، دماغ سوچنے کے لیے، اب پاؤں اگر یہ کہیں کہ میں ساری عمر بوجھ اٹھاتا چلا آیا ہوں، سر نیچے آئے اور میں اوپر چلا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعضاء کو مختلف مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان مقاصد کے پیشِ نظر ہی ان کی تخلیق کی گئی ہے۔
یورپ میں جب بے راہ روی کو قانونی طور پر جائز قرار دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے زنا کو جائز قرار دے دیا۔ اب وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں چالیس فیصد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب حرامی بچوںکو بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس پستی کو بلندی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جرم کا ارتکاب کرناتو دور کی بات ہے۔ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ راستہ بہت برا ہے۔ جس راستے پر چل کر تم نے کسی کی عزت پر ڈاکہ ڈالا ہے، اسی راستے پر چل کر تمہاری عزت پر بھی ڈاکہ ڈالا جا سکتا ہے۔ جو چیز تم غیر کے لیے گوارا کرتے ہو، وہ چیز تمہیں اپنے لیے بھی گوارا کرنی پڑے گی۔ اسلام نے اس کی شدید ممانعت کی ہے۔ یہ گھناؤنا جرم ہے اس لیے اس کی سزا بھی کڑی ہے۔
پیر کرم شاہ نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو سیاست سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ مگر پیر صاحب کے صاحبزادے امین الحسنات نے سیاست میں حصہ لیا۔ وہ مذہبی امور کے وزیر مملکت ہیں۔ لندن میں میاں نواز شریف نے صحافی کے اس سوال پر کہ کیا یہ وہی عدالتیں ہیں جس کے لیے آپ نے تحریک چلائی تھی۔ جوا ب میں نواز شریف نے غالب کا یہ شعر سنایا…
؎زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
مطلب یہ کہ ہماری زندگی اس قدر غموں اور مصیبتوں میں کٹی کہ ساری عمر کوئی تمنا پوری نہ ہوئی تو پھر ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف پر یہ شعر فِٹ نہیں بیٹھتا، اس لیے کہ ان کی ساری عمر غموں اور مصیبتوں میں نہیں کٹی۔ اس بات کا وہ گلہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی کوئی تمنا پوری نہ ہوئی ہو۔ وہ پنجاب کے وزیر خزانہ، وزیر اعلیٰ اور تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ کیا اب بھی ان کو خدا سے کوئی گِلہ شکوہ ہے؟ ان کو غور کرنا چاہیے کہ اب جس صورتحال کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کے ذمے داروہ خود، ان کی اولاد اور بعض مشیر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن