ابوالاثر حفیظ کا ایک شعر

(پروفیسر حمید کوثر)


جی اٹھونگا مجھے امید تو ہے
پھر ہوا آئے گی مدینہ سے
حضرتِ حفیظ کو نہ جانے کیوں کھٹکا لگا ہوا تھا کہ پاکستان جس کو اسلامی نظریاتی زندگی کی ایک عمل گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے اور جہاں سے اسلام کا نور پھوٹنا اور عالم اسلام کو دین کی نشاۃ ثانیہ سے منور کرنا ہے اُس کی دل و جان سے حفاظت کرنا بہت ضروری ہو گا اس بارے میں آغازِ قیام پاکستان سے انہیں تشویش تھی جس کا ذکر کبھی کبھار آجاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ خود حفیظ مرحوم کے اندر ایک ذاتی خدشہ پل رہا ہے۔
میری نظر میں حفیظ شاعرِ شباب تھے اور شاعرِ شباب ہیں اُن کا فکری اسلوب جو اُن کی رعنائیوں کا آئینہ دار ہے اُن کا بیان بھی شباب کی سرمستی سے پھٹا پڑتا ہے اور’’ شاہنامئہ اسلام ‘‘کی رزمیہ نگاری میں بھی ’’ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘کی لہو ترنگ ہے۔ تاہم ابوالاثر کسی عصری رومانوی تحریک کی پیداوار نہیں ہیں اس لئے اُن کے شباب کا مفہوم دیگر ہم عصر شعراء سے بالکل مختلف ہے وہ اپنی افتادِ طبع کے لحاظ سے شاعر اسلام ہیں اور ان کا سارا کلام شاہنامہ اسلام سے الگ ہٹ کے بھی اس معیار پر پورا اُترتا ہے۔ حفیظ صاحب کی ابتدائی غزلوں کے رس میں ادب کے اس مجموعی اسلوب کی چس موجود ہے جو خمریات اور داغ کی شوخی بیان نے پیدا کیا اور جو مرزا غالب کے دریائے پر شور کے آگے ایک روک کی حیثیت رکھتا ہے حالی اور اکبر کے علاوہ داغ کا رنگ سب پر غالب ہے اور خمریات ایک دل پسند اور مرغوب مضمون ہے لیکن خماریات کی تمام تر سر شاری کے باوجود حفیظ کا فکری لہجہ ہی کچھ اور ہے وہ شراب و شباب کی باتیں راگ رنگ اور دل ترنگ کے ساتھ کرتے ہیں لیکن ان کی سوچ پر دین و اخلاق کے محاسبے کا پہرہ ہے۔
کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامن ابر بہار میں
وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی
دونوں جہاں ہیں آج میرے اختیار میں
ایک ہی غزل کے دو شعر حفیظ صاحب کو وہ انتہائی استثنائی حیثیت عطا کرتے ہیں جس کا ذکر ہو رہا ہے محتسب اور شیخ خوف و لحاظ اور دونوں جہان پر اختیار ہونا اگر ان باتوں کو سامنے رکھا جائے تو اُن کے صفائے قلبی کی دلیل حاصل ہو جاتی ہے۔ حفیظ کی غزل میں خدا۔ یارب۔ عذاب۔ ثواب۔ نجات۔ فردوس اور مئے طہور کا ذکر فراوانی کے ساتھ ہے۔
فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو نہ لے چلو میری نیت خراب ہے
حیاداری بھی شعر حفیظ کا ایک جوہر ہے
مجھ کو اے کاتب تقدیر تماشانہ بنا
عشق چہرے پہ لکھا ہو منظور نہیں
عفوو درگزر کی دینی روایت سے بھی پہلو تہی نہیں کی گئی
حسن والے مرے قاتل ہیں یہ دعویٰ ہے میرا
حسن والوں کو سزا ہو مجھے منظور نہیں
وہ بندگان عالم میں حضور سرور عالمؐ کے عطا کردہ طریق حیات سے گریز سے لرز جاتے ہیں
جس نے اس دور کے انسان کئے ہوں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں
غزل کی طرح نظمیات میں وہ اپنے دینی فرائض میں کمی نہیں چھوڑتے بلکہ کچھ اور بڑھ جاتے ہیں
یہ پر فسوں غمزے ترے نامحرموں کے سامنے
ہٹ سامنے سے دور ہو مردود ہو مقہور ہو
حفیظ کبھی مروجہ معنی میں جوان ہوئے بھی یا نہیں یہ تو اُن کے ہم عمر جانیں البتہ وہ تادم آخر شعری تشخص کے ساتھ جوان رہے اُن کی جوانی کا تصور شباب دوام کا تصور ہے اور وہ حوض کنارے ساقی کوثر سے ملاقات پر ایمان رکھتے ہیں شاید یہی وہ یقین تھا جس نے شاہنامہ اسلام لکھنے کیلئے انہیں تاریخ کے کنویں جھنکوائے اور وہ تحقیق کے سمندروں سے موتی ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائے اس سلسلے میں اُن کے بے پناہ مطالعہ اور تحقیق و تلاش کو نظر انداز کرنا بھی زیادتی ہو گی بہر حال حفیظ کو اللہ اُس کے دین اُس کی کتاب اُس کے رسول آخر حضرت محمدؐ اور صحابہ کرام سے جوبے پناہ محبت اور آخرت پر اُن کے ایمان کی جو صورت تھی اُس میں انسانی کمیوں، محرومیوں، افلاس، جہالت اور گمراہی کے علاج کی ایک ہی روشن دلیل نظر آتی تھی اور وہ یہ کہ جس طرح عہد نبویؐ میں غلامی ختم ہوئی جس طرح ظلم کا خاتمہ ہوا جس طرح کمزوروں کو طاقت ملی جس طرح بے آسرا لوگوں کو سہارا ملا اُس کا نمونہ آج کے دور میں پیش کر دیا جائے چنانچہ شاہنامہ اسلام کے سب سے پہلے غازی مرد اتباع حضورؐو صحابہ کرام میں خود حفیظ ہیں اور وہ حضور نبی اکرمؐکی خدمت اقدس میں سلام پیش کرتے ہوئے شعری ایجاز و اختصار تخصیص الفاظ فصاحت اور بلاغت کے ساتھ پاک جذبوں کا جوان احساس پیش کرتے ہیں
سلام اے آمنہ کے لالؐ اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات فخر نوعِ انسانی
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں جگر میں
حفیظ کی شاعری میں ان عوامل کی موجودگی اُن کو پتہ دے رہی تھی کہ کچھ قوتیں اُن کی تنہائی یا پاکستان کے لوگوں میں نظریاتی کمزوری سے ضرور فائدہ اٹھائیں گی چنانچہ جب پاکستان میں سیاسی زلزلہ آیا اور بنیادوں میں وسیع دراڑیں پڑ گئیں تو حفیظ کا وہ خدشہ پورا ہوگیا جس کا اندیشہ انہوں نے زیر تبصرہ شعر میں ظاہر کیا تھا لیکن وہ مسلمان تھے اس لئے ہوائے مدینہ میں دم عیسیٰ کی جو معجزہ نمائی ہے اُس سے اُمید رکھتے تھے کہ جب اسلام اپنی معنوی صورت پر بحال ہو گا تو میرا شعری و قومی تشخص زندہ ہو جائے گا اور انشاء اللہ پاکستان کے دارلاسلام میں ہوائے مدینہ چلے گی اور حفیظ قومی ترانہ کے لفظوں سے ایک سراپا اختیار کر کے للکار کے کہیں گے دیکھ لو میں پھر زندہ ہو گیا۔
پھر ہوا آگئی مدینے سے۔

ای پیپر دی نیشن