فراست اور صبر و تحمل کی ضرورت

میاں نوازشریف کے خلاف دو مقدمات العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں سماعت تقریباً مکمل ہو رہی ہے اور دونوں میں چند روز میں فیصلہ آ جائے گا۔ اگر ان دو مقدمات میں بھی سزا ہی ہوتی ہے تو وہ خبریں دم توڑ جائیںگی جو اداروں اور نوازشریف کے درمیان این آر او کے حوالے سے شائع ہوتی رہی ہیں۔
نوازشریف کی سزا کے باوجود اگر شہبازشریف کے خلاف ریفرنس داخل نہیںہوتا تومزید اک اور سمجھوتے کے بارے میں یقین بڑھ جائے گا۔ نوازشریف کی برطرفی کے تاریخی پس منظر میں سزا کا امکان زیادہ ہے۔ کیونکہ سیاسی حالات اور وجوہات جوں کی توں ہیں۔ نوازشریف ان دنوں خاموش ہیں مگر کیا دو مقدمات میں قید کے بعد بھی خاموش رہیں گے۔
معروف سینئر سیاستدان بیگم عابدہ حسین نے ایک چینل کے پروگرام میں کہا کہ نوازشریف کی سیاست شروع ہی ابھی ہوئی ہے۔ یہ بھی ایک Point of view ہے، انہوں نے کہا کہ مریم نواز خوبصورت ہیں۔ ایک Point of view یہ بھی ہے کہ نوازشریف کی خاموشی طوفان سے پہلے کی خاموشی ہو سکتی ہے۔ بظاہر صورتحال یہ ہے کہ مشکلات کے باوجود نوازشریف سیاست سے دستبردار ہوئے ہیں نہ ہی مریم نواز۔ نوازشریف قید ہو گئے۔ تو کیا تب بھی مریم نواز خاموش رہیں گی۔ اس کا امکان کم ہے۔ کیا پارلیمانی نظام میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہوتیں۔ اپوزیشن کی دو پارٹیاں ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی۔ دونوں کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے…تو باقی PTI بچے گی جو حکومت میں ہے تو کیا ایک پارٹی کی حکومت قائم ہو گی۔ اس صورتحال میں وفاق کے لئے سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صورتِ حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ سندھ کی قیادت اسلام آباد کے خلاف مسلسل بول رہی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس نے پہلے کالا باغ ڈیم کی ہی بات کی تھی مگر سندھ سے آواز اُٹھی تو بھاشا ڈیم پر آ گئے…
نواز شریف صبر و تحمل سے مقدمات میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کے نتائج پر بھی انہوں نے زیادہ شور نہیں مچایا۔ وہ دو باتوں سے بہت مایوس تھے۔ ایک تو اُن کی بیگم کی رحلت ، جس کا اُنہیں بہت دُکھ ہوا…ساتھ میں مریم نواز کی پریشانی…نواز شریف کو اس بات کا بھی دُکھ ہواکہ لاہور آمد پر اُنکے استقبال کے لئے لاکھوں ا فراد جمع ہوئے مگر شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے عوام کو اندھیرے میں رکھا اور ائیر پورٹ جانے کے بارے میںغلط بیانی کرتے رہے…اس سے نواز شریف اور مریم نواز کی تضحیک ہوئی۔ پاکستان ہم سب کا پیار ا وطن ہے۔ یہ بیش بہا قربانیوں سے بنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حالات کے تحت فوج کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ دونوں جانب سے مناسب ڈائیلاگ کی بجائے انا پرستی کا مظاہرہ ہوا۔
اب عقل و فراست کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور عسکری قوت مصنوعی اقدامات کی بجائے حقیقی معنی میں گفتگو کریں…نواز شریف کی تقریب میں وزیراعظم بھارت آ گیا تو کیا قیامت ہو گئی۔ یہ اچھا پیغام ہے ہمارے وزیر خارجہ تو UNO میں وزیر خارجہ سشما سوراج سے علیک سلیک پرتیاررہے۔
دو بار کے وزیراعلیٰ پنجاب ا ورتین بار کے وزیر اعظم کو ہم بھارت کا دوست ثابت کرنے میں لگے رہے تو یہ مناسب نہیں۔ ایک طبقہ خیال کی رائے میں جناب نواز شرف بہت بڑے محبِ وطن ہیں۔ یہ لڑائی آگے چلی تو اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔ اصل منزل تو ہمارا پیارا پاکستان ہے۔ بدترین حالات میں جنرلوں نے پھر کیوں حکومت بھٹو کے حوالے کی۔ زیادہ طاقت کا مظاہرہ کرنے سے معاملات اُلٹ جاتے ہیں۔ خاطرِ پاکستان ہم سب کو عقل و دانش اور فراست کے علاوہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...