العزیزیہ فلیگ شپ : نوازشریف کیخلاف ریفرنسز : فیصلہ پیر کو آئیگا : سابق وزیراعظم کی کی ایک ہفتہ کیلئے مہلت کی استدعا مسترد

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی+نا مہ نگار)اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز میں فیصلے محفوظ کر لیے ہیں جو24 دسمبر پیر کو سنائے جائیں گے جبکہ نواز شریف کی جانب سے کیس میں ایک ہفتے کی مزید مہلت کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے کہ بیان ریکارڈ کرنے کے بعد ملزم نے مزید وقت مانگا، جبکہ مزید وقت مانگنے کی درخواست پر نیب کا موقف تھا کہ مزید مہلت فیصلے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔سماعت کے اختتام پر سابق وزیراعظم نے روسٹرم پر آکر جج ارشد ملک سے مکالمہ کیا کہ اگراس طرح عدالتی کارروائی ہونی ہے تو پوری قوم اوراللہ بھی دیکھ رہا ہے، آپ جج ہیں، امید ہے انصاف ملے گا، مجھ پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔بدھ کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسزکی سماعت کی جس میں فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دیئے گئے۔احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے کہ بیان ریکارڈر کرنے کے بعد ملزم نے مزید وقت مانگا، نوازشریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کاروبار میرے بچوں کے ہیں جو بالغ اور خود مختار ہیں، میرا ان کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد پراسیکیوٹر نیب نے دلائل دیئے،خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جب کہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کے لیے تھی، وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔خواجہ حارث نے اپنے موقف پر دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میرا موقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔انہوں نے کہا نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، جج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا موقف درست مان لیں تو اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نہ کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں، اکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے،3ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور28جولائی کو ان3ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے۔اسی5رکنی بینچ کے28جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دی تھی۔سماعت کے دوران خواجہ حارث نے جہانگیر ترین کیس کا بھی حوالہ دیا۔فلیگ شپ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ملزمان کو صفائی دینے کے تین تین موقع دیئے گئے مگر انہوں نے جائیداد کے ذرائع نہیں بتائے۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر نے کہاکہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو7لاکھ80ہزار درہم کے مالی فوائد ملے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔نیب نے موقف اختیار کیا کہ کاروبار کے حقیقی مالک نواز شریف ہیں، بچے بے نامی دار ہیں، وائٹ کالر کرائم میں جائیداد اور کاروبار بے نامی دار کے نام پر شروع کیا جاتا ہے، نواز شریف کو بچوں کی کمپنیوں سے بھاری رقوم ٹرانسفر ہوتی رہیں، نوازشریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز شریک ملزمان ہیں جب کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق نیب کے سیکشن نائن اے فائیو کے تحت سزا دی جائے۔ احتساب عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کر لینے کے بعد نوازشریف روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے جج سے سوال کیا کہ کیا یہ میری آخری پیشی ہے؟جس پر فاضل جج نے کہا کہ اب24 دسمبر کو فیصلہ ہو گا۔
العزیزیہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...