فکری اور نظری اعتبار سے یہ پرفتن دور جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، قائدؒ و اقبالؒ اور جنت مکانی مجید نظامی کئی مواقع پر بہت یاد آتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک شتر بے مہار ٹی وی چینل پر سقوط ڈھاکا بارے پروگرام دیکھ رہا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسن چودھری کے دریدہ ذہن خیالات سن کر بہت افسوس ہوا۔ وہ فرما رہے تھے سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ تو ہونا ہی تھا‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہہ دیا تھا دو ایسے خطوں کے لوگ باہم مل جل کر کیسے رہ سکتے ہیں‘ جن کی زبان‘کلچر اور تمدن یکسر مختلف ہو‘ اور یہ کہ مولانا آزاد نے سقوط مشرقی پاکستان کی پیشنگوئی پہلے سے کر ڈالی تھی۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر کفن پھاڑ کر بولے دنیا کی تاریخ گواہ ہے مذہب اور دین کے نام پر بننے والی ریاستیں اور ملک زیادہ دیر تک اس نکتہء مرکزیہ پر قائم و دائم نہیں رہتے‘ چندے بعد ان کی زندگیوں کے تقاضے جب بدلتے ہیں تو نئے نظریات کے تحت زندگی گزارنے کی ضرورت اشد ہو جاتی ہے۔ …… ان ہر دو سیاستدانوں یعنی قوم کے رہنماؤں کے خیالات سن کر میں ششدر رہ گیا‘ دلگیرپلکوں پر ستارے جھلملانے لگے‘ قائدؒ و اقبالؒ کی یاد آئی تو میں چشم تصور میں ان دونوں عظیم رہنماؤں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ مرحوم مجید نظامی بھی ساتھ کھڑے تھے۔ میں خود میں اپنے ان تینوں محسنوں کے ساتھ آنکھیں دوچار کرنے کی جرات نہ پا رہا تھا۔ اچانک میرے منہ سے نکلا قائد محترم آپ نے تو ہندو نواز مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کا شو بوائے قرار دیکر ان کی تمام تر منفی سیاست کا پردہ چاک کر دیا تھا اور اب ہمیں دیکھیے کہ ہماری قوم نے اس ہندو نواز ملا کے نظریات کو صائب قراردے کر قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے قائدؒ کے روبرو یہ بھی یاد آیا کہ مولانا آزاد کی ساری پیشنگوئیاں پاکستان بارے ہی کیوں تھیں؟؟؟ جس ملک کی بنت میں ان کا ذرہ بھر کردار نہیں تھا‘ وہ تمام عمر اس ملک کے مستقبل بارے پیشنگوئیاں کرتے رہے‘ آخر کیوں؟ اس لئے کہ وہ دل سے اس نوزائیدہ اسلامی ملک کے قیام کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ مجھے تاریخ کے جھروکوں میں سے سر نکالتی ہوئی بہت سی سچی باتیں یاد آنے لگیں‘ مولانا آزاد کی روح بھی انہیں تاحال نہ بھول سکی ہو گی۔ پاکستان بن گیا‘ اسلامیان ہند کے سامنے خون کے دریا تھے۔ کوئی کربلا سی کربلا تھی کہ دہلی میں متعصب اور درندے ہندوؤں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ یہ دیکھ کر مولانا آزاد کے اندر ایمان کی کوئی ایک کرن جاگی تو وہ ہاتھ ملتے ہوئے دہلی کے مظلوم مسلمانوں کو پرسہ دینے کیلئے اس شہر کی تاریخی جامع مسجد میں پہنچ گئے وہاں انہوں نے کلمہ گو مسلمانوں سے جو رقت آمیز خطاب کیا وہ تاریخ کے اوراق پر رقم ہے۔ ان کا کہنا تھا مسلمانو! مت گھبراؤ تمہارے بزرگوں نے اسی گنگا اور جمنا پر وضو کئے تھے‘ صبر کا دامن تھامو اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تقسیم کے بعد سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے مولانا آزاد کی زندگی میں جس طرح زہر گھولا‘ اس وقت کسی لمحے انہیں دو قومی نظریئے یا پاکستان کی یاد تو آئی ہو گی؟ قائدؒ کے روبرو میرے افکار بکھر بکھر کر سامنے آ رہے تھے‘ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا آزاد کسی بیرونی دورے پر بھارت سے باہر جا رہے تھے کہ ان کا ہوائی جہاز کراچی ائرپورٹ پر کسی ضرورت کے تحت آ کر رکا‘ وہ پاک سرزمین پر قدم رنجہ نہ ہوئے تو کراچی کے اخبار نویس ان سے ملنے جہاز کے اندر چلے گئے‘ پوچھا مولانا آپ پاکستان کے بدترین مخالف رہے ہیں‘ اب تو پاکستان بن گیا‘ آپ کے خیالات کیا ہیں؟ کہا پاکستان ایک تجربہ ہے آپ اسے کامیاب بنائیں۔ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ قائدؒ نے خود پاکستان کو نفاذ اسلام کے حوالے سے ایک تجربہ گاہ کہا تھا۔ مولانا آزاد نے جب یہ کہا کہ پاکستان کے تجربے کو کامیاب بنایئے تو خود ان کی خواہش بھی اس میں شامل تھی کہ یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ یہ بات اب وثوق تک پہنچ چکی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں سردار پٹیل اور پنڈت نہرو سمیت جنونی ہندوؤں نے مولانا آزاد کے ساتھ جس بے پناہ تعصب کا اظہار کیا اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا‘ وہ اپنے کئے پر بہت پچھتائے اور درپردہ خاموشی کے ساتھ دو قومی نظریئے کی سچائی ان کے دل میں گھر کر گئی۔ وہ تازندگی ضد اور ہٹ دھرمی سے پاکستان کی مخالفت کرتے رہے اور اس نوزائیدہ اسلامی ملک کی اساس بارے منفی طرز کی پیشنگوئیاں بھی ان کے اسی تعصب کا اظہار رہیں۔ حقیقی امر یہ ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کسی طور بھی پاکستانی قوم کے ہیرو نہیں ہیں‘ وہ بھارتی قوم کے ہیرو بھی نہ بن سکے اور یہی قلق لے کر دنیا سے رخصت ہوئے‘ آج پاکستان کی نوجوان نسل اگر مولانا آزاد کو اپنا ہیرو گردان کر ان کے نظریات یا پیشنگوئیوں کو اہمیت دیتی ہے تو یہ سراسر تاریخ اور بر عظیم کی دیرینہ سیاست سے لاعلمی اور چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک مرد آہن مرحوم مجید نظامی اور ان کے معدودے چند ساتھیوں نے وسائل نہ ہونے کے باوجود قائدؒ و اقبالؒ اور دو قومی نظریئے کا سبق قوم کو پڑھایا‘ وہ تا عمر اسی نیک کام میں مشغول رہے‘ آج قیام پاکستان کے بعد ہماری پانچویں نسل پھر قائدؒ و اقبالؒ کے نظریات اور دو قومی نظریئے کی افادیت سے بے بہرہ نظر آتی ہے‘ جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس لئے ہم اپنے قومی تنازعوں کے ضمن میں مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشنگوئیوں کو صائب سمجھ کر ان پر یقین کا دم بھرتے ہیں‘ فواد حسن چودھری سمیت ایسے تمام سپوت جنہوں نے تحریک پاکستان اور دو قومی نظریئے کی افادیت کا سرے سے مطالعہ ہی نہیں کیا‘ یہ بتائیں کہ مولانا آزاد کے نظریات اور پیشنگوئیوں کا پرچار کر کے وہ اپنی منزل (خاکم بدہن) سقوط ڈھاکہ سے بھی کہیں آگے تو تلاش نہیں کر رہے ؟؟؟ مولانا ابو الکلام آزاد کو تو کانگریس ایسی متعصب ہندو جماعت نے اسی کام پر معمور کر رکھا تھا کہ وہ لحظہ بہ لحظہ پاکستان کی اساس کے خلاف مخالفانہ نظریات گھڑ کر اسلامیان ہند کے ایمان کو ڈاواں ڈول کریں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلامی قومیت کی بنیاد وطنیت کے بجائے کلمہ طیبہ کے رشتے پر ہے تو پھر دو خطوں کے مسلمانوں کی زبان اور کلچر مختلف ہونے کا سوال کیونکر پیدا ہوا؟ تقسیم سے پہلے ہی کانگریس کے متعصب ہندوؤں نے درپردہ ابو الکلام آزاد کو بتا دیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد ہم مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو زبان اور کلچر و معیشت کے تنازعے اٹھا کر سازش کے بعد علیحدہ کر دیں گے‘ اس مقصد کے حصول کے لئے پنڈت جواہر لعل نہرو کی راندہ درگاہ بیٹی اندرا گاندھی کام آئی اور یہ سارا منصوبہ اس نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ اس میں مولانا آزاد کی پیشنگوئی کہاں سے آ گئی؟ اسے پیشنگوئی کہنے کے بجائے یہ کہیئے کہ مولانا آزاد بھی کانگریس کے متعصب اور زہریلے ہندوؤں کی اس سازش میں شریک تھے کہ دیدہ دانستہ ان سے یہ پیشنگوئی جاری کرائی گئی‘ مولانا آزاد اگر اس معاملے میں دیانتدار تھے تو پھر وہ مقبوضہ کشمیر بارے بھی بدخواہی کر دیتے کہ جو اب بھارت کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ مولانا آزاد کے پاس پیشنگوئیوں کیلئے صرف پاکستان ہی رہ گیا تھا؟
رہ گئی بات مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ’’فرمان‘‘ کی تو اس بارے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ تو ہے زناریء بت خانہ ایام ابھی۔ میرا خیال ہے انہیں قرآن حکیم‘ احادیث نبویؐ اور قائدؒ اور اقبالؒ کے فرمودات سمیت دو قومی نظریئے کی افادیت کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے۔ وہ صرف اس سوال کا جواب دیں کہ مسلمانوں کے پاس ملت‘ قوم اور ملک بنانے کے لئے اپنے دین کے علاوہ اور کیا بنیادی نظریہ موجود ہے؟ اگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کو سیکولر اور لادینیت کی طرف لے جانا مقصود ہے توپھر اس کے لئے تگ و دو کر دیکھیئے؟ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ یاد رکھیئے جو دینی اور اسلامی نظریات قیام پاکستان کے وقت صائب تھے وہ آج بھی صائب ہیں‘ ان کو بدلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘ پاکستان کا آئین اور قومی بیانیہ اس کے دو بڑے پاسدار ہیں‘ پاکستانی قوم کی معنوی اور حقیقی ترکیب ایک ہی ہے‘ بقول اقبالؒ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشنگوئی ؟؟؟
Dec 20, 2018