جعلی بینک اکائونٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔ نجی ٹی وی کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ 10 سے زائد والیمز پر مشتمل ہے، رپورٹ کے مطابق تقریبا 620 افراد کو نوٹس بھیجے گئے جن میں سے 470 افراد نے خود یا وکیل کے ذریعے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔ رپورٹ کے مطابق 104 جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے تقریبا 210 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکائونٹس کے معاملے کی سماعت 24 دسمبر کو ہوگی اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کیس کی سماعت کریں گے۔یاد رہے کہ اومنی گروپ پر جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام ہے اور اس کیس میں گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادوں عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ جے آئی ٹی نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی سوالات پوچھے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے جعلی اکائونٹس انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکائونٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکائونٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکائونٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دبائو کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔ دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکائونٹس سے ہوئی، ان کی تعداد 29 تھی جن میں سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکانٹس شامل ہیں۔ ان 29 اکائونٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکائونٹس بھی شامل تھے۔21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی اور انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحہ رضا، انور مجید اور عبدالغنی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکائونٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکائونٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکائو نٹ سے ناصر لوتھا کے اکائونٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر سٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکائونٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کے بعد اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکائونٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔واضح رہے کہ ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکائونٹس کھولتے ہیں، جنہیں ''ٹریڈ اکائونٹس ''کہا جاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکائونٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح کے اکائونٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔
جے آئی ٹی نے جعلی بینک اکائونٹس کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی
Dec 20, 2018 | 13:42