موسم بہت سرد ہے اتنا سرد کہ سانس کہ ہر کوئی اس کی شدت محسوس کررہا ہے ۔ویسے تو پاکستا ن میں سارے موسم ہی شدت پسند مشہور ہیں ۔یعنی سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے تو جون جولائی میں ناقابل برداشت گرم کا سامنا رہتا ہے ,جولائی اگست کی بارشیں سرکار کے کیے سب دعوں پہ پانی پھیرنے کو تلی رہتی ہیں ۔بہار میں واقعی ہر سو بہار نظر آنے لگتی ہے ۔ہر طرف نیلے پیلے لال پھولوں کھلے نظر آتے ہیں لوگ گھروں سے سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہیں تو کسان آنے والی فصل کے لیے زمین زیادہ جو ش و جذبے سے تیار کرتے نظر آتے ہیں۔میرے ملک میںپہلے خزاں کے موسم کو بھی خوش آمدید کہا جاتا تھا بلکہ بہت سی شاعری تو خزاں کے دم سے بہار کا سماں لیے ہوتے تھی ۔لیکن اب پچھلے چند سالوں سے پاکستان موسمیاتی تبدلیوں کی وجہ سے جن مسائل کا شکار ہے ان میں سب سے زیادہ متاثر لاہور شہر ہونا پڑھ رہا ہے ۔یعنی لاہور میں آج کل خزاں نہیں آتی بلکہ سانسوں میں زہر بھرنے سموگ کا موسم آنے لگا ہے ۔یہ موسم تو چلتے رہیں گے لیکن آج کل میرے ملک میں ایک اور بھی دھند پڑتی نظر آرہی ہے ۔ایک دن ایک اچھی خبر آتی ہے تو دوسرے دن دو خبریں ایسی آتی ہیں کہ لوگ پریشان ہو کے سر پکڑ لیتے ہیں ۔سیاستدانوں سے لے کر اعلی سابق فوجی عوام کے دلوں میں سب کے خلاف کہنے کو بہت کچھ ہے ۔عوام بے چاری کرے بھی تو کیا ؟اخبارات روز ایسی ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں ,فیچر لکھے جاتے ہیں کہ ان میں ہر صاحب ثروت کا کچھا چٹھا پڑھنے کو ملتا ہے اور ٹی وی چینلز اپنی ریٹنگ کے لیے ایسے ایسے پرگرام لے کے آتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ٹی وی چینلز پر اس بات کا مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کون اینکر کتنی ہوشیاری سے سیاست دانوں اور بیروکریٹس کے خلاف بات کرتا ہے ۔اور سیاست دان سمجھے نہ سمجھے ان کو ہر روز کوئی نئی کہانی دے جاتے ہیں ۔اصل لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ سیدھی سادھی عوام کیا کرے ۔اب بہت سے یہ بھی کہیں گے کہ عوام سیدھی سادھی نہیں رہی تو ان کی حدمت میں عرتض ہے کہ عوام ابھی شعور کی ان منزلوں سے بہت دور ہے جو انہیں اپنے راہنماوں کے اصل چہرے دکھاسکے ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عوام ہر صورت ہر حال میں ہر کہیں اپنے محبوب سیاسی راہنماوں کے حق میں دلائل لیے کھڑی نظر آتی ہے ۔اور مخالفوں کی ہر اچھی بات میں نقص نکالنے میں کامیاب رہتی ہے ۔صاحبو آج کل شدید دھند کا موسم ہے ۔ایک دن خبر پڑھتے ہیں کہ ملکی معیشت ترقی کر رہی ہے تو دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبتا چلا جارہا ہے ۔قوم ابھی تک حقائق کو سمجھ کے بھی سدھرنے کو تیار نظر نہیں آرہی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ لگتی ہے ہمارے بہت سے لوگ زندگی کے دن پورے کرتے نظر آتے ہیں ۔جن کے کاروبار چل رہے ہیں ان کا سارا وقت اپنے کاروبار کے گرد گھومتا رہتا ہے اور جو بہت سے ویلے ہیں وہ اپنا سارا وقت ’’وقت پاس‘‘ کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیںوقت پاس کرتے ہیں وقت کی قدر کر کے کچھ بہتر کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔آج کل وقت گزرانے کا سب سے موثر زریعہ سوشل میڈیا ہے ۔لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے اپنے اپنے گھر والوں سے بے نیازدنیا جہاں سے تعلق بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
مجھے جن واقعات نے خون کے آنسو رلایا وہ مسلمانوں پر سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کے حملے ہیں۔جتھے کس طرح حملے کرتے تھے ۔اس کی شدت کا اندازہ نہیں ہوتا تھا لیکن پچھلے دنوں لاہور میں وکیلوں کے ایسے ہی جتھے کا ہسپتال پہ چڑھ دوڑنا سمجھا گیا کہ اسی طرح کے جتھوں نے 1947 میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے تھے اور جتنا نقصان وہ کرسکتے تھے، انہوں نے کیا۔۔ صرف ایک لمحے کو سوچیے کہ حملہ کرنے والے کون ہیں؟ اس ملک کے پڑھے لکھے وکیل اور قانون کے محافظ۔ دوسری طرف جن پر حملہ کیا گیا وہ کون ہیں؟ اس ملک کے پڑھے لکھے ڈاکٹرز۔ اور جس عمارت پر حملہ کیا گیا وہ ایسا اسپتال ہے جہاں دل کے مریض اپنا علاج کراتے ہیں۔یہ دھند ہے جو ہمارے نظام تعلیم کی دین ہے بچے نمبر تو بہت لے رہے ہیں لیکن اخلاقیات نہیں سیکھ پا رہے۔اپنے حقوق کی بات کرنے والے دوسروں کو حقوق پورے کرنے کو تیار نہیں ۔اس سارے واقعے میں وکیل اور ڈاکٹرز ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس واقعے کی وجوہات ہوں گی تو یہ سب کچھ ہوا۔ مگر کیا معاملات کو حل کرنے کا یہ طریقہ کار ہے جو اپنایا گیا ہے؟ اور بے گناہ لوگ بھی اس میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ہم اتنے پرتشدد کیوں ہوگئے ہیں کہ اپنے مخالف کو جان سے ہی مار دینے سے کم پر راضی نہیں ہیں یا ہماری رائے اور ہمارے نظریے سے اختلاف رکھنے والے کو ہم یہاں رہنے اور جینے کا حق تک دینے کو تیار نہیں ہیں؟موسمی دھند تو چند ہفتوں بعد ختم ہوجائے گی لیکن جو دھند ہمارے ذہنوں پہ جم چکی ہے ہمیں اس دھند کا خاتمہ کرنے کو بھی سوچنا ہے ۔