اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیراعظم کے معاونین خصوصی فردوش عاشق اعوان اور شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت آرٹیکل 6 کا ٹرائل کر رہی تھی، پہلے مختصر فیصلہ دیا گیا، آج جو تفصیلی جاری کیا گیا اس میں پیراگراف 66 بہت اہم ہے، یہ پیراگراف بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت سے قبل اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی آبزرویشن دینے کی جج کو کیا اتھارٹی تھی، کہیں پر بھی ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس میں کسی جج کو ایسی آبزرویشن دینے کا اختیار ہو، ایسے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی، یہ انتہائی غلط آبزرویشن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں سپریم کورٹ کا سنایا گیا ایک فیصلہ ہے جسے نسیم حسن شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر پھانسی کی سزا آئین اور اسلام کے خلاف ہے اور کسی بھی جج کو آئین کے تحت اس طرح کا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔ فروغ نسیم نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا جائے جس میں استدعا کی جائے گی کہ ایسے جج صاحب کو پاکستان کی کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ہونے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ ذہنی طور پر ان فٹ ہیں۔ اس قسم کی آبزرویشن دے کر مذکورہ شخص ناصرف عدالت کا استحقاق مجروح کرتا ہے بلکہ یہ انصاف کی فراہمی کے لیے بہت کڑا وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جج صاحب نے اس طرح کا فیصلہ دے کر خود کو ذہنی طور پر غیر مستحکم ثابت کردیا ہے لہٰذا سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو فی الفور کام کرنے سے روک دیا جائے جبکہ عدالت عظمٰن کے سینئر ججز سے درخواست ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کا انتظامی اور عدالتی کام نہ دیا جائے،وزیر قانون نے کہا کہ 'جسٹس وقار نے غیر روایتی اور غلط آبزرویشن دی ہے اور اگر آرٹیکل 209 دیکھا جائے تو اس کے ایسی صورت میں دو پیرا ہیں، جس میں نااہلیت اور ذہنی حالت کے بارے میں بات کی گئی ہے،انہوں نے کہا کہ نااہلی کی بات کی جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے جو قوانین بنے ہیں ان میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں یہ بات ڈال گئی تھی کہ نااہلی کے لیے آرٹیکل 209 کو بنیاد بنایا جائے گا،ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جج اگر اس طرح کا کوئی فیصلہ دیتا ہے تو وہ نہ صرف آئین اور قانون کے خلاف ہے بلکہ یہ عدلیہ کے اعتماد کے لیے بھی نقصان دہ ہے،معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ 'خصوصی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا، فیصلے میں عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں، ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہم حیران ہیں۔ پیرا 66 میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے قانون، شرعی اور انٹرنیشنل لا کی دھجیاں اڑا کر دکھ دیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔،انہوں نے کہا کہ 'فیصلے کے پیرا 66 پر شدید تحفظات ہیں، یہ پیرا پوری دنیا میں شرم کا باعث بن رہا ہے، وفاقی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرنے جارہے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ 'کیس کے تمام محرکات کو دیکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی مقدمے میں شفاف ٹرائل آئینی تقاضا ہے، پرویز مشرف کے ٹرائل کو عجلت میں نمٹایا گیا اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، کیا ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے قومی اداروں میں ٹکراؤ کا احتمال ہو۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ’’میڈیا سٹرٹیجی‘‘ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں حکومت نے خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو لیگل ٹیم کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اجلاس میں اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے اور ڈی چوک پر پرویز مشرف کو لٹکانے کی بات کرکے انسانی حقوق کی حدود کو پار کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی ہے، اس فیصلے میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، ملک میں اداروں کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قانونی ٹیم کو جسٹس وقار سیٹھ کیخلاف ریفرنس تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
اسلام آباد ( وقائع نگار خسوصی) وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کیس ہم قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہونگے، اگرفیصلے میں انصاف نظرنہ آیا تو حکومت انصاف چھیننے کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی، پرویز مشرف کیس میں ہم کیسے اپیل دائر کر سکتے ہیں، اپیل پرویز مشرف نے کرنی ہے قانونی ماہرین فیصلے کے قانونی سیاسی اور سلامتی کے پہلوں کا جائزہ لے کر حکومتی بیانیہ سامنے رکھیں گے۔ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پرویز مشرف کی پھانسی کے تحریری فیصلہ جاری ہونے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں پڑھا ہے ۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد مشاروتی ٹیم رائے دے گی۔ معاون خصوصی نے کہا کہ فیصلہ کرنا اور فیصلے میں انصاف ہونا نظر آنا مختلف ہے جبکہ ہم انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور فیصلے میں انصاف ہوا تو ہم ساتھ کھڑے ہیں ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مزید کہا کہ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ انصاف کے لئے متلاشی رہے جبکہ سنگین غداری کیس میں حکومت کیسے اپیل دائر کر سکتی ہے ۔ اپیل دائر کرنا پرویز مشرف نے خود کرنی ہے۔ جب پرویز مشرف کے وکلا اپیل دائر کریں گے تو پھر حکومت کی جانب سے قانونی نکات کو دیکھا جائے گا اور اپیل کے بعد فیصلہ کریں گے کہ اس کی کیا حیثیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قانون اور انصاف کے لئے کھڑی ہوگی۔دوسری جانب ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ شفافیت کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے، اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں اصلاحات لا رہے ہیں جبکہ اصلاحات کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت مافیا کرتاہے۔