مشرف کیس کا مفصل فیصلہ اور آئین کی پاسداری کا سوال

پرویز مشرف صاحب کی قومی خدمات اور دفاع وطن کے لئے ان کے بے مثال کردار پر تو کوئی جھگڑا ہی نہیں۔ اگر ان کے دفاع وطن کے جاندار عسکری کردار کے حوالے سے کوئی بدطینت ان پر غدارِ وطن کا لیبل لگائے تو بلاشبہ اس کا منہ توڑ دیا جانا چاہیے اور ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ ایسے دوسرے بدخواہوں کو بھی سبق حاصل ہو۔ اس معاملہ میں میرا اپنا ردعمل بھی متشددانہ ہو گا۔ بے شک دفاع وطن کی ذمہ داریوں میں عساکر پاکستان اور عسکری قیادتوں نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، مشاقی اور دفاع وطن میں ان کی لازوال قربانیوں کی پوری دنیا قائل اور معترف ہے۔ اس لئے ان ذمہ داریوں کی بنیاد پر جنرل مشرف سمیت کسی بھی فوجی سربراہ پر ملک سے غداری کا لیبل لگانا ملک کے دشمنوں کی زبان بولنے کے مترادف ہو گا ۔ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہونا چاہیے جو ملک کے دشمنوں کے ساتھ کئے جانے کا متقاضی ہوتا ہے۔ مگر یہاں مسئلہ ملک سے غداری کا تو ہے ہی نہیں۔ یہاں تو آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی کا معاملہ ہے۔ اگر آج اس ملک کا سسٹم (سول اور عدالتی نظام) آئین و قانون کی عملداری کے ماتحت چل رہا ہے تو پھر آئین و قانون کی عملداری نے ہی غالب ہونا ہے۔ اگر آئین کی دفعہ 6 میں آئین کو توڑنے ، معطل کرنے‘ سبوتاژ کرنے اور معلق کرنے کو سنگین غداری کے جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی سزا موت مقرر کی گئی ہے تو کسی کے ماورائے آئین اقدام کی بنیاد پر اس پر سنگین غداری کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے وہی سزا ملے گی جو آئین کی متعلقہ دفعہ اور اس کو سپورٹ کرنے والی قانون کی متعلقہ شق میں متعین ہے۔ اس معاملہ میں متعلقہ عدالت کی کارروائی‘ اس کے طریق کار اور فیصلے پر ملزم کو یا کسی اور کو بھی کسی قسم کا اعتراض ہو‘ فیصلے اور متعلقہ قانون میں کوئی سقم یا ابہام نظر آ رہے ہوں یا انصاف کی عملداری کے تقاضے پورے نہ کئے جاتے محسوس ہوں تو ان سارے معاملات میں داد رسی کے لئے اپیلٹ کورٹ کا مجاز فورم سپریم کورٹ کی صورت میں موجود ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ تو ویسے ہی آئین و قانون کی عملداری و پاسداری کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی متعدد تقاریر میں بھی اور آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے کیس میں بھی باور کرا چکے ہیں کہ عدلیہ نے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اور اس کے تقاضوں کی روشنی میں ہی اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے معاملہ میں بھی ان کا بنیادی تجسس یہی تھا کہ توسیع کی آئین و قانون میں کہیں گنجائش ہی نہیں ہے تو عدالت ماورائے آئین و قانون کسی نوٹیفکیشن کو کیونکر جائز تسلیم کر سکتی ہے۔ یہ ’’سقم‘‘ دورکرنے کے لئے ہی فاضل چیف جسٹس نے حکومت کو آئین و قانون کی متعلقہ شقوں میں ترمیم کے لئے چھ ماہ کی مہلت دی تاکہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی ضرورت ہے تو اس کی آئین اور قانون میں بھی گنجائش موجود ہو۔
توجناب! آپ کے پاس آئین و قانون کی حکمرانی و عملداری کا پرچم تھامے کھڑی عدلیہ موجود ہے تو جنرل مشرف کے کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے آئین و قانون سے ہٹ کر کئے گئے کسی فیصلے کے خلاف آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق دادرسی کے لئے آپ کے پاس مجاز فورم موجود ہے اور خصوصی عدالت کے فیصلہ کے حوالے سے نامور اور سینئر قانون دانوں سمیت ملک کے مختلف طبقات کی جانب سے متذکرہ فیصلہ کے خلاف جو مضبوط و جاندار سوال اورنکات اٹھائے گئے ہیں ان کی بنیاد پر یہ سزا کے خلاف اپیل کا مضبوط کیس بنتا ہے۔بالخصوص خصوصی عدالت کا مفصل اکثریتی فیصلہ جاری ہونے کے بعد تو اس کیخلاف اپیل اور بھی مضبوط ہو گئی ہے کیونکہ اس فیصلہ میں یہ قرار دیکر شعائر اسلامی اور شرف انسانیت کی بھی توہین کی گئی ہے کہ مشرف اگر فیصلہ پر عملدرآمد سے پہلے انتقال کر جائیں تو انکی لاش ڈی چوک پر لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔ ان ریمارکس سے تو یہ فیصلہ صادر کرنیوالے جج حضرات کے مشرف کے بارے میں ذاتی تعصبات اور بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں جبکہ کسی فیصلہ میں ایسے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کی عدلیہ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اسی بنیاد پر اٹارنی جنرل انور منصور، وزیر قانون فروغ نسیم، وفاقی وزیر فواد چودھری‘ مشرف کے وکیل سلمان صفدر، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، سابق وزیر قانون سید علی ظفر باہمی مشاورت سے ایک مضبوط کیس تیار کر سکتے ہیں اور کیس کو مزید مضبوط بنانے کے لئے سینئر قانون دانوں وسیم سجاد اور بیرسٹر اعتزاز احسن کی معاونت بھی حاصل کر سکتے ہیں جو پہلے ہی خصوصی عدالت کے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ چنانچہ مشرف کیس کے فیصلہ میں قانونی اور آئینی اسقام موجود ہوں گے یا کیس کی کارروائی کے حوالے سے کسی قسم کی بے ضابطگی سرزد ہوئی ہو گی تو اپیل میں یہ فیصلہ اُڑنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگے گی اور مشرف صاحب اور ان کے متعلقین کو عدالتی سرخروئی بھی حاصل ہو جائے گی۔
پھر حضور والا! جھگڑاکیا ہے۔ یہی کہ مشرف کے -3 نومبر 2007ء والے ماوراے آئین اقدام پر آئین کی دفعہ 6 کو بروئے کار کیوں لایا گیا ہے۔ جناب یہ دفعہ آئین میں موجود ہے تو اس کے زمرے میں آنے والے کسی ماورائے آئین اقدام پر یہ دفعہ لاگو بھی ہوگی۔ آئین کی عملداری تو اسی طرح قائم ہو سکتی ہے۔ البتہ اس پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں کہ آئین میں یہ دفعہ موجود ہونی چاہئے یا نہیں۔ اگر کسی کو آئین و قانون کی حکمرانی والے سسٹم میں یہ آئینی دفعہ سوٹ نہیں کرتی تو آئین میں ردوبدل کے متعینہ آئینی طریق کار کے مطابق پارلیمنٹ میں ترمیمی آئینی بل لا کر یہ دفعہ آئین سے حذف کی جا سکتی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ دفعہ آئین میں موجود بھی ہو اور اس کی ذیل میں آنے والے کسی اقدام کے خلاف اس آئینی دفعہ کو بروئے کار بھی نہ لایا جائے۔
میں آج مشرف کیس کے میرٹ پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ یہ سارے معاملات یقیناً سپریم کورٹ کے روبرو اپیل میں اٹھائے جا سکتے ہیں اور اٹھائے بھی جائیں گے کہ 3 نومبر 2007ء کے اقدام میں مشرف کے معاونین و مشیروں بشمول شوکت عزیز‘ زاہد حامد‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور اس وقت کی کابینہ کے ارکان تک کو اس کیس میں کیوں ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے اگر پہلے ہی سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو اس پر بھی اپیل کے مراحل میں بات ہو جائے گی۔
میرا تجسس آج صرف آئین و قانون کی عملداری کے حوالے سے ہے اور میں اس امر کا قائل ہوں کہ ملک میں جو بھی آئین اور جو بھی قانون مروج ہے اس کی پاسداری ہونی چاہئے۔ اگر موجودہ وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین کسی کو ناقص نظر آتا ہے تو اس کی جگہ آئینی طریق کار کے مطابق نیا آئین منظو کرا لیں۔ بہرحال ملک میں جو بھی آئین ہو‘ اسے لاگو ضرور ہونا چاہئے۔ اگر موجودہ آئین کی دفعہ 6 میں‘ جو 1973ء کے آئین میں پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ شامل کی گئی ہے کسی کو اعتراض تھا تو اس کو آئین سے نکالنے کے بے شمار مواقع حاصل ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق مختارکل تھے جو اپنی ہی لائی گئی غیرجماعتی اسمبلی میں آئین کی 8 ویں ترمیم کی منظوری کے مراحل میں دفعہ 6 آئین سے حذف کرا سکتے تھے۔ اسی طرح جنرل پرویزمشرف کے پاس بھی ایسے کئی مواقع تھے جنہیں ان کے 12 اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدام کو جائز قرار دینے والی سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم تک کا اختیار دیدیا تھا۔ وہ اپنے اس اختیار کو بروئے کار لا کر دفعہ 6 کا گلا گھونٹ سکتے تھے اور پھر ان کے پاس انہی کی لائی گئی ایسی اسمبلی بھی موجود تھی جس میں بیٹھے لوگ انہیں مزید اس ٹرموں کیلئے وردی سمیت صدر منتخب کرنے پر بھی تیار تھے۔ یہ اسمبلی تو آئین کی دفعہ 6 سے چھٹکارا پانے کیلئے انتہائی سازگار تھی۔
اور اب بھی حالات کوئی ایسے دگرگوں تو نہیں ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں بھی شیخ رشید اور دوسرے احباب کو مکمل اعتماد ہے کہ آرمی چیف کے منصب کی توسیع کے بل کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت پوری اپوزیشن بھی خوشی خوشی منظوری دے دے گی۔ پھر جناب ہاتھ کنگن کوآرسی کیا۔ لگے ہاتھوں اس خوشی خوشی میں آئین کی دفعہ 6 سے بھی اس اسمبلی کے ذریعے چھٹکارا پا لیں مگر جب تک یہ دفعہ آئین میں موجود ہے‘ اس کی عملداری قائم کرنا ہوگی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن