اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ماحول کی آلودگی کا باعث بننے پر آئندہ اجلاس میں آئل ریفائنریز کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران، چاروں صوبوں کے سیکرٹریز ٹرانسپورٹ، سیکرٹری پٹرولیم اور آٹو موبائل کمپنیوں کو طلب کر لیا، کمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ اور طالب علموں کے درمیان معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی بھی ہدایت کی، سینیٹر رانا مقبول کی طرف سے بوڑھے والدین اور سینئر سٹیزن کی بہبود کے حوالہ سے پیش کیا جانے والا بل سیکرٹری قانون سے مشاورت کے بعد 15 روز کے اندر کمیٹی کو پیش کیا جائے۔ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے طالب علموں کی طرف سے کئے جانے والے احتجاجی مارچ کے بعد طالب علموں اور انتظامیہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور کمیٹی وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سے سفارش کرتی ہے کہ وہ طالب علموں کو ایک بار پھر اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کشیدگی کے دو پہلو ہیں، عالمگیر وزیر کا معاملہ عدالت میں ہے جس میں کمیٹی مداخلت نہیں کر سکتی تاہم طالب علموں کو ہراساں کرنے کے حوالہ سے ہم امید کرتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی طالب علموں کے مسائل فوری حل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ سے سفارش کی تھی کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کیلئے کوٹہ میں اضافہ کرے، امید کرتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھے گی۔ سینئر سٹیزن کے حوالہ سے سینیٹر رانا مقبول احمد کی طرف سے پیش کئے جانے والے بل کی منظوری کے حوالہ سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس طرح کا ایک بل وزارت انسانی حقوق کی طرف سے بھی تیار کیا گیا ہے مگر اس میں وزارت کی طرف سے تاحال کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی، کمیٹی رانا مقبول احمد کی طرف سے پیش کئے جانے والے بل کو سیکرٹری قانون و انصاف کے ساتھ مشاورت کے بعد 15 دن کے اندر کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کرتی ہے تاکہ اس کو منظور کیا جا سکے۔ لاہور میں سموگ کے حوالہ سے مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ہمیں بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک میں آئل ریفائنریز کمپنیاں 2003ء سے ڈیوٹی حاصل کر رہی ہیں مگر وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق پٹرولیم مصنوعات فراہم نہیں کر رہیں، دنیا اس وقت یورو 6 پر جا چکی ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی تک یورو 2 چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں آئل ریفائنریز کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران، چاروں صوبوں کے سیکرٹریز ٹرانسپورٹ، سیکرٹری پٹرولیم اور آٹو موبائل کمپنیوں کو طلب کرکے ان سے بریفنگ لی جائے کیونکہ ملک بھر میں ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ ہے۔ اس موقع پر اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے بتایا کہ ہماری یونیورسٹی کے سابق طالب علم عالمگیر وزیر اور دیگر طلباء نے 29 نومبر کو لاہور میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور تقاریر کیں جس کے بعد 30 نومبر کو یونیورسٹی انتظامیہ کو پتہ چلا کہ عالمگیر وزیر کو یونیورسٹی سے گرفتار کیا گیا ہے، ۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ سرکاری گاڑیاں یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت لئے بغیر داخل ہوئی تھیں جس کے بعد اگلے دن پتہ چلا کہ اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اب اسے جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 22 سال بعد ایمپلائز یونین اور ٹیچرز ایسوسی ایشن کو بحال کیا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے کسی طالب علم کی ڈگری واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث منسوخ نہیں کی گئی۔ کمیٹی کو ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 5 سرفہرست ممالک میں شامل ہے، پاکستان اتنی آلودگی پیدا نہیں کر رہا جتنا اسے آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 43 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات، شاپنگ بیگز، ٹائرز، کوڑے اور فصلوں کی باقیات کو آگے لگانا بھی آلودگی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت نے آلودگی پر قابو پانے کیلئے مختصر وقت میں ٹھوس اقدامات کئے ہیں اور عوام میں بھرپور آگاہی پیدا کی جا رہی ہے تاکہ وہ ماحول کو صاف ستھرا بنانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ سے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری بھی کرا لی گئی ہے جس کے بعد 2030ء تک ٹرانسپورٹ کا 60 فیصد الیکٹرک پر منتقل کر دیا جائے گا جس میں سب سے زیادہ تعداد بسوں کی ہو گی۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) پنجاب کے نمائندہ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لاہور میں خاص طور پر سموگ پیدا ہو رہی ہے، اس کی چند بنیادی وجوہات میں سالڈ ویسٹ کو جلانا، جدید معیار کے مطابق پٹرولیم کا عدم استعمال، انڈسٹری اور بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب میں 8 ہزار بھٹے کام کر رہے ہیں جنہیں زیگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا رہا ہے جس سے بھٹوں سے پیدا ہونے والی 80 فیصد آلودگی پر قابو پایا جا سکے گا۔ اجلاس میں سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج، سینیٹر محمد علی خان سیف، سینیٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر قرۃ العین مری، سینیٹر محمد طاہر بزنجو، سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ، سینیٹر کشو بائی اور سینیٹر رانا مقبول احمد نے شرکت کی۔
غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات سے ماحولیاتی آلودگی، سیکرٹری ٹرانسپورٹ، پٹرولیم،آٹو موبائل کمپنیاں طلب
Dec 20, 2019