انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حالیہ جنگ میں ہمیں ساٹھ ہزار افراد کو کھونا پڑا۔ساٹھ ہزار۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم ناقابل بیان کرب سے گزرے ۔ زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔۔۔درد ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہ اور صرف ساٹھ ہزار افراد کے درد کی داستان نہیں،اس میں پل پل مرتے ان کے اپنوں کی، ان کے اہل خانہ کی ان کہی کہانی بھی شامل ہے۔ کہانی تو اس خودکش بمبار کی بھی ہے، جس نے وہ حملہ کیا تھا۔ وہ مرا،تو ساتھ اُسکے بچے، اُس کی ماں بھی مر گئی، اسکے اپنے بھی مر گئے۔اس لیے لازم ہے کہ دہشتگردی کو موضوع بناتے ہوئے جذباتیت سے اجتناب برتا جائے۔ مگر یہ عمل مشکل ہے ۔اور یہ یوں مشکل ہے کہ جذباتیت کا شکار ہونا، چیختے چنگھاڑتے الفاظ استعمال کرنا، سہل ہے۔ اسی باعث جید قلم کار یہ کہتے سنائی دیے کہ کسی بھی بڑے واقعے کو، اورموجودہ بحث میں دہشت گردی کے واقعے کو، فوری موضوع بنانا خود کہانی کار کو بھی گمراہ کرسکتا ہے۔ورجینا ولف کا کہا درست کہ ناول میں دنیا کا ہر موضوع سما سکتا ہے، مگر میلان کنڈیرا کی بات زیادہ اہم کہ جو فکشن زندگی کے نئے گوشے آشکار نہیں کرتا، وہ کچھ بھی آشکار نہ کرکے دریافتوں کے سلسلے میں شریک ہونے سے قاصر رہتا ہے۔اور اس کے لیے گہرائی میں اترنا ضروری ہے۔پھر صرف موضوعات کا گھمیر اور پرپیچ ہونا کافی نہیں۔کہانی کے اور بھی تقاضے ہیں۔ بہ قول احسن سلیم، ’ادب موضوعات سے نہیں اسلوب سے بنتا ہے۔ ‘9/11جیسے بڑے موضوع پر بھی ایک ناقص کہانی بیان کی جاسکتی ہے، اور ماں جیسے عام سے سبجیکٹ پرایک شاہ کار تخلیق کیا جاسکتا ہے۔خوش قسمتی سے اردو کو ایسے جید قلم کار میسر تھے، جو دہشت گردی کے المیوں کے شاہد بنے اور انھیں کہانی کا روپ دیا۔ بٹوراے کے سمے دہشت گردی کے جن واقعات نے جنم لیا، انھیں منٹو ،بیدی،اور بعد ازاں انتظار حسین اوران کے ہم عصروں نے موضوع کیا۔اسد محمد خاں ، عبداللہ حسین اور حسن منظر کے ہاں بھی دہشت گردی کے المیوں نے کبھی براہ راست، کبھی بلاواسطہ، تخلیقی شکل میں اظہار پایا۔ منشا یاد، رشید امجد، خالدہ حسین اور دیگر،افغان وار کے بعد جنم لینے والے پرپیچ واقعات کے شاہد بنے اور اُنھیں موضوع کیا۔ APS پر مستنصر تارڑ کا ’’ اے مرے ترکھان‘‘سامعین اور قارئین کے دلوں پر آنسوئوں سے نقش ہوا۔اے خیام، اخلاق احمد، مبین مرزا ، زیب اذکار حسین، مرحوم نجم الحسن رضوی اور آصف فرخی نے میرے شہر، کراچی کی تلخ کہانیوں کو منظر کیا۔اخلاق صاحب کا’’ قتل گاہ میں ایک دوپہر‘‘ ایک سہ پہر ’’اجرا تخلیقی مکالمہ‘‘ کی ایک نشست میں پڑھا گیا ، جو ذہن میں آج بھی گونجتا ہے۔ تازہ ناولز میں بھی فائرنگ کی آوازیں اور دھماکے سنائے دیے، سید کاشف رضا کا ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ اور برادرم عثمان جامعی کازیر طبع ناول’’ سرسید اور سیکٹر انچارج‘‘ اسکی دو مثالیں ہیں۔اس وسیع موضوع پر ممتاز فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا ایک طویل تجزیاتی مضمون موجود ہے، جس کا مطالعہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ (اگرمحمدحمید شاہد کا ناول’’ مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ نہ ہوتا، تو ’’تکون کی چوتھی جہت ‘‘کا شاید کبھی جنم نہ ہوتا)تو صاحبو، کہانی کار ایک فسوں گر ہوتا ہے۔ وہ اُن افراد تک بھی رسائی پاسکتا ہے، جن کی زبان، جن کا کلچر، جن کا رہن سہن اس سے مختلف ہو۔ اور ایسا وہ اُس’’ احساس‘‘ کے وسیلہ کرتا ہے، جو انڈس سوئیلائزیشن سے امریکا کی ڈیتھ ویلی تک یکساں ہے۔ یعنی غم اور خوشی کا احساس۔۔۔ نفرت اور محبت کا احساس۔اور اگر وہ اس احساس میںوہ اپنا فلسفہ بھی گوندھ دے، تو بڑا ادیب جنم لیتا ہے۔ ہمارے تخلیق کاروںنے بھی دہشتگردی سے جڑے درد کے احساس میں ،انسانیت کا فلسفہ گوندھ کر کہانی بیان کی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ادب اور ادیب بے قیمتی کا شکار ہوئے۔کتاب کلچر اور مطالعے میں کمی آئی،اگر یہ اردو کانفرنسیں، یہ ادبی میلے نہ ہوتے، تو شاید ادیب کو بھلایا جاچکا ہوتا۔اور یہ؛ سب سے بڑی دہشت گردی ہوتی۔ اور ہر شخص سے جڑا ہر فردایک کہانی ہے۔ایک کربناک کہانی۔ لیکن اگر کہانی کار ہی مر گیا، تو پھر کہانیاں کون بیان کریگا؟ تو ہمیں اپنے اندر کے کہانی کار کو زندہ رکھنا ہوگا۔اس معاشرے میں انتظار حسین، عبداللہ حسین کو، اسد محمد خاں، مستنصر حسین تارڑ ، حسن منظر اور زاہدہ حنا کو زندہ رکھنا ہوگا کیونکہ یہی کہانی کار ؛ہماراا اثاثہ ہیں۔یہی ہمارا فخر ہیں۔ یہی کہانی کار زمین کا نمک ہیں!