حکومت نے ’’شو آف ہینڈ‘‘ سے سینیٹ الیکشن کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سید شبلی فراز نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ سینیٹ الیکشن آئندہ سال مارچ یا اس سے پہلے ہو جائینگے۔ قبل ازیں کسی حکومت نے شو آف ہینڈ سے سینیٹ الیکشن نہیں کرایا۔ کابینہ نے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں حکو مت شو آف ہینڈ کیلئے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کریگی۔ انتخابات کی شفافیت کیلئے سپریم کورٹ نے مختصر حکم جاری کیا تھا جس کی بنیاد پر حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملہ پر بھی بحث ہوئی ہے کہ کس طرح اس بل کو منظور کروایا جاسکتا ہے ، کیا یہ کام آئینی ترمیم، ایگزیکٹیو آرڈر یا الیکشن کمیشن کے ذریعے ممکن ہوگا۔ اس معاملہ پر غور کیا جا رہاہے۔ ہمارا مدعا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ’’ شو آف ہینڈ ‘‘کے ذریعے ہوں۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اوپن ووٹنگ پر کرانے پر بحث ہوئی ہے ۔کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ آئین پاکستان میں اوپن بیلٹ کی بظاہر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ امید ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے کافی پہلے سپریم کورٹ سے ہمیں رہنمائی ملے گی، اگر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وہاں سے بل منظور کرانے کی کوشش کرینگے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی جو سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈ سے کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں سینیٹ کے انتخابات ’’شو آف ہینڈ‘ کے ذریعے فروری 2021ء میں کرانے کیلئے اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت شروع کر دی ہے۔ آئندہ چند روز میں حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت ریفرنس دائر کر دیا جائیگا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم ، مشیر ڈاکٹر بابر اعوان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ریفرنس تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن (پی ڈی ایم ) نے 31جنوری2021ء تک مطالبات تسلیم کرنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو بھی اپنی جماعتوں کے قائدین کے پاس 31دسمبر2020تک استعفے جمع کرانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
سر دست وزیر اعظم کی لیگل ٹیم نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے باوجود سینیٹ کے انتخابات نہیں رک سکتے البتہ سندھ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں وہاں سینیٹ کا انتخاب موخر ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم نے بھی کابینہ کے سینٹ کے انتخابات قبل ازوقت کرانے کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے نائب صدر سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ آئین کے مطابق سینیٹ کے نصف ارکان مارچ میں ریٹائرہوجائیں گے اور مارچ میں ہی نئے ارکان کا انتخاب ہوگا جس کے بعد سینیٹ کے انتخابات مکمل ہونگے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میںاپوزیشن کو چیلنج دیا ہے کہ ’’ اگر اپوزیشن اسلام آباد میں ایک ہفتہ بھی گزار دے تو استعفا کے بارے میں سوچنا شروع کردوں گا۔ انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ’’ ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں مگر اپوزیشن کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’ اگر پی ڈی ایم لانگ مارچ شروع کردے تو پتہ چل جائیگا کہ استعفا ان کو دینا پڑیگا یا مجھے‘‘ ۔ ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کیسے باہر گئے اور اب ان کو واپس کیسے لائیں گے۔ اسکے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ’اب میں آپ کو کیا بتاؤں، یہ ایک دکھ بھری کہانی ہے ۔ اس بار نواز شریف نے ایسی اداکاری کی ہے کہ بالی ووڈ میں آسکرایوارڈ مل جائیگا‘جب ان سے پوچھا گیا کیا حکومت نے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے وقت سے پہلے سینیٹ انتخابات کا فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ یہ ہماری مرضی ہے، ہم جب بھی الیکشن کرائیں۔ شو آف ہینڈز کا مطلب اوپن بیلٹ ہے۔ اس میں سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے رائے دی ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر اوپن بیلٹ انتخابات ہوسکتے ہیں اور اس بارے میں قانون کی تشریح کیلئے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کا مشورہ دیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی الیکشن کمیشن سے درخواست کرینگے کہ ایک مہینہ پہلے انتخابات کروائیں جائیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس کے بعد اعلان لاہور کے نام سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس پر مولانا فضل الرحمان ، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نوازسمیت اتحاد میں شامل تقریباً11 جماعتوں کے رہنمائوں نے دستخط کئے ہیں ۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اسے اعلان لاہور قرار دیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نجات دلانے کیلئے ضروری ہے کہ اس سلیکٹڈ ہائی بریڈ نظام کو فی الفور رخصت کیا جائے اور ملک میں آزاد ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعہ حقیقی نمائندہ حکومت قائم کی جائے۔
مسلم لیگ (ن) کی سی ڈبلیو سی ، سی ای سی اور ارکان اسمبلی کے اجلاس میں لاہور کے جلسہ میں بھرپور شرکت نہ کرنے والے مسلم لیگی رہنمائوں کا احتساب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جلسہ کے سلسلے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنیوالے عہدیداروں کو ہٹا دیا جائیگا۔ مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو، سینٹرل ورکنگ کمیٹیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کے مشترکہ اجلاس نے پی ڈی ایم کے فیصلوں کی مکمل توثیق کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان اسمبلی 31 دسمبر تک استعفے پارٹی قیادت کو جمع کرادینگے ، اجلاس میں پارٹی قیادت کو مناسب وقت پر استعفے متعلقہ سپیکرزکو جمع کرانے کا اختیار دے دیا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے جیل جانے کے بعد مریم نواز نے اپنی تمام تر توجہ پارٹی کی تنظیم نو پر مرکوز کر دی ہے۔ وہ جاتی امرا میں روزانہ کی بنیاد پر پارٹی رہنمائوں کے اجلاسوں کی صدارت کر رہی ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) پر پنجاب کی پارٹی کا تاثر ختم کرنے کیلئے چاروں صوبوں کے رہنمائوں کو پارٹی میں مرکزی عہدیدار بنانا چاہتی ہیں پارٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں بھی تنظیم سازی پر توجہ کی ضرورت پر زور دیا گیا پارٹی کے اندر ارکان اسمبلی میں سٹیج پر قبضہ کرنے والے لیڈروں کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا ہے لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور ثنا اللہ زہری کے الگ ہونے کے بعد بلوچستان میں پارٹی کی تنظیم نو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔