ان تحریکوں کا نتیجہ کیا نکلا؟

1968میں پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تحریک بحالی جمہوریت ہو یا 1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک، ضیاء الحق کیخلاف سیاسی جماعتوں کی 1983 میں شروع ہونیوالی ایم آر ڈی کی تحریک یا پھر جنرل پرویز مشرف کیخلاف ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے شروع کی گئی جمہوریت کی بالا دستی کی تحریک ہو یا پھر موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے چلائی جانیوالی تحریک ان سب کا مقصد پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی بحالی، لوگوں کی معاشی مشکلات کا خاتمہ، شہری آزادیوں کی بحالی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان کیخلاف چلائی جانیوالی 1968 کی بحالی جمہوریت کی تحریک کا نام بھی ’’ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ پی ڈی ایم تھا۔ پاکستان کے لوگوں نے ان تحاریک میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ سینکڑوں پاکستانی شہریوں نے ان تحاریک میں اپنی جانیں بھی دیں لیکن وہ اعلیٰ مقاصد جن کیلئے یہ تحاریک شروع کی گئیں وہ حاصل نہ ہو سکے۔ 
نوائے وقت کے معمار اور چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے راقم کو بتایا تھا کہ جب ایوب خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا اور وہ اسلام آباد میں اپنے گھر میں جسے ایوب خان کی کوٹھی کہا جاتا تھا، منتقل ہوئے تو انھوں نے میرے ( یعنی مجید نظامی صاحب) کیلئے پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ جناب مجید نظامی اور نوائے وقت ایوب خان کی بنیادی جمہوریت اور صدارتی نظام کی مخالفت کر رہے تھے۔ جناب نظامی اور نوائے وقت نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی 1964 کے صدارتی انتخاب میں حمایت کی تھی چونکہ ایوب خان اقتدار سے الگ ہو چکے تھے تو جناب مجید نظامی نے ان سے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی اور اسلام آباد میں ان سے ملاقات کیلئے تشریف لائے۔ نظامی صاحب کے بقول جب وہ سابق صدر ایوب خان کو ملنے ان کی اقامت گاہ پر پہنچے تو مصافحہ کرتے ہوئے ایوب خان نے نظامی صاحب سے کہا ’’ نظامی صاحب آپ کو جمہوریت مبارک ہو‘‘ دراصل ایوب خان کے اس جملے میں طنز پنہاں تھا چونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں گڑبڑ شروع ہو گئی  تھی اور مغربی پاکستان میں بھی امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں تھی، ایوب خان کا اشارہ اس صورتحال کی طرف تھا جس پر جناب مجید نظامی نے سابق صدر سے کہا کہ یہ سب کچھ آپ کا کیا دھرا ہے؟ ایوب خان نے استفسار کیا کہ میرا کیا قصور ہے؟ تو نظامی صاحب نے کہا کہ آپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں سے عہد کیا تھا کہ انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائیگا لیکن آپ نے اقتدار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو دے دیا۔ جناب مجید نظامی نے راقم کو بتایا کہ ایوب خان کیساتھ ہونیوالی یہ ملاقات بھی ناخوشگوار رہی۔ ایوب خان اقتدار سے الگ ہوئے لیکن انکے خلاف چلائی جانیوالی بحالی جمہوریت کی تحریک ایک المیہ پر منتج ہوئی۔ یہ المیہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا وجود میں آنا تھا۔ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کیخلاف جو 9 جماعتی اتحاد پاکستان قومی اتحاد کے نام سے بنا، وہ بھی جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مقاصد لے کر قائم ہوا تھا لیکن پاکستانیوں نے دیکھا کہ ملک میں جمہوریت بحال ہونے کی بجائے 11 برس تک فوجی آمریت قائم رہی جس کے خاتمے کیلئے ایک اور تحریک ’’ موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی‘‘ قائم ہوئی۔ 1980 کی دہائی میں ضیاء مخالف سیاسی جماعتوں نے جمہوریت اور آئین کی بحالی کیلئے زبردست جدوجہد کی، جانی قربانیاں بھی دی گئیں، سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں کو جیلوں میں بھی ڈالا گیا۔ 1988 میں جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو بھی پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب پورا نہ ہوا، الٹا سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا۔  پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جو ضیاء دور کے بعد سیاسی منظر پر سامنے آئیں، انھوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اقتدار سے محروم کرنے کیلئے مسلسل افراتفری اور قانون شکن اقدامات کو فروغ دیا، اس دور میں بد عنوانی بڑھی، پارلیمانی روایات کو پامال کیا گیا۔ ہارس ٹریڈنگ، ارکان اسمبلی کی وفاداریوں کی خرید و فروخت عروج پر پہنچ گئی۔ 12 اکتوبر 1999 کو جب پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تو سیاسی جماعتوں نے 2002 کے صدارتی الیکشن کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک اور بحالی جمہوریت کی تحریک چلا دی۔ جنرل مشرف قریباً دس برس کے بعد اقتدار سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی پھر سیاسی منظر پر سامنے آ گئیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کی اپنی پرانی روش تبدیل نہ کی۔ کھینچا تانی چلتی رہی، ایک دوسرے پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں گئی۔ اسکے اقتدار میں آنے کو شروع سے ہی مخالف جماعتوں نے چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ جماعت اپنے جمہوری میرٹ پر نہیں آئی بلکہ اسے اقتدار دلایا گیا۔ یہ الزامات پچھلے اڑھائی سال سے لگائے جاتے رہے ہیں اور اب گیارہ چھوٹی بڑی جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کے نام سے ایک تحریک شروع کی ہے، اسکے مقاصد بھی ماضی کی تحریکوں سے مختلف نہیں یعنی پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی، صاف شفاف الیکشن کا انعقاد، ملکی معیشت کو مستحکم بنانا، غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑانا اور پاکستان کو خود کفیل ملک بنانا۔ یہی وہ مقاصد ہیں جن کیلئے یہاں تحاریک چلائی جاتی رہیں لیکن ان تحاریک کے بعد جو حکومتیں بنیں اور جو پارٹیاں اقتدار میں آئیں انھوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے کام کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، معاشی حالت ابتر ہے اور سیاسی اداروں خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی وہ جمہوری انداز میں سوچ رہی ہیں۔ اس سب کا مقصد حکومت میں موجود سیاسی جماعت کو اقتدار سے باہر کر کے اسکی جگہ لینا ہے۔ اب بھی لوگ مشکل حالات میں ٹھٹھرتی سردی اور کرونا وائرس میں جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں اور شاید لانگ مارچ میں بھی شریک ہونگے لیکن سوچنا یہ ہے کہ اس ساری سرگرمی کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا پاکستان حقیقی جمہوری ملک بنے گا؟ معیشت مستحکم ہو گی؟ معاشی اور سماجی انصاف ملے گا؟ کرپشن ختم ہو گی؟ اور پاکستان اکیسویں صدی کا ایک باوقار ملک بنے گا؟ ان سوالات کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔ 
حرف آخر یہ ہے کی جو سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کی روح رواں ہیں وہ کئی عشروں تک اقتدار میں رہ چکی ہیں ، انکی حکمرانی کا ٹریک ریکارڈ بھی قوم کے سامنے ہے۔

ای پیپر دی نیشن